سلسلے میں اس نے کسی ماہر استاذ کے پاس رہ کر واقفیت حاصل کی ہو، اور اسی وجہ سے منیۃ المفتی 1 کے آخر میں لکھا ہے کہ:
’’اگر کسی شخص کو ہمارے ائمہ کی تمام کتابیں حفظ ہوں تو بھی فتوی دینے کے لیے شاگرد ی ضروری ہے، تاکہ فتوی دینے کی راہ اس کی سمجھ میں آئے، اس لیے کہ بہت سے مسائل میں اہلِ زمانہ کی اس عادت کے مطابق جوشریعت کے خلاف نہیں ہے جواب دیا جاتا ہے‘‘۔
اورقنیہ میں ہے کہ:
’’نہ مفتی کے لیے جائز، نہ قاضی کے لیے کہ وہ ظاہرِ روایت کہ مطابق فیصلہ کرے، اور عرف کو چھوڑ دے‘‘۔
قنیہ کی یہ عبارت خزانۃ الراویات 1 میں بھی نقل کی گئی ہے، اور یہ عبارت اس بارے میں صریح ہے جوہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ مفتی اپنے زمانے کے عرف کے خلاف فتوی نہیں دے گا۔
فتویٰ میں مصلحت کا لحاظ ضروری ہے: اور اس سے قریب وہ عبارت ہے جو اشباہ میں فتاویٰ بزازیہ سے نقل کی گئی ہے کہ مفتی اس مصلحت کے مطابق فتویٰ دے جو اس کی سمجھ میں آئے اور میں نے (ردالمحتار: باب القسامہ ۵/۴۵۰) میں لکھا ہے کہ اس صورت میں جب کہ ولی مقتول جس محلّے میں لاش ملی ہے اس محلّے والوں کے علاوہ کسی آدمی پر قتل کا دعویٰ کرے، اور محلّے والوں میں سے دو گواہ پیش کرے تو امام اعظم ؒ کے نزدیک وہ گواہی قبول نہیں کی جائے گی، اور صاحبین کے نز دیک قبول کی جائے گی۔ (اس مسئلے کی تفصیل کرنے کے بعد تنبیہ کا عنوان قائم کر کے علامہ شامی ؒ نے لکھا ہے کہ) علامہ حموی نے علامہ مقدسی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:
’’میں امام صاحب کی قول پر فتویٰ دینے سے ٹھہرا رہا، اور میں نے اس قول کی اشاعت نہیں ہونے دی، کیوںکہ اس قول پر ضررِ عام مرتب ہوتا ہے، اس لیے کہ جو سرکش آدمی یہ قول جانتا ہے وہ لوگوں کو ایسے محلّے میں قتل کرے گا جہاں اس محلّے والوں کے سوا کوئی اور موجود نہ ہو، کیوںکہ اسے اطمینان ہوگا کہ محلّے والوں کی شہادت تو اس کے خلاف قبول نہیں ہوگی۔ اس لیے میں نے کہا کہ صاحبین کے قول پرفتویٰ مناسب ہے، خاص طورپر جب کہ احکام زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بدلتے ہیں۔‘‘ (ردالمحتار کی عبارت پوری ہوئی۔
مفتی کے لیے لوگوں کے احوال کا جاننا ضروری ہے: اور فتح القدیر کی کتاب الصوم باب مایوجب القضاء والکفارۃ (۲/۲۵۹) میں جہاں صاحبِ ہدایہ نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دانتوں کے درمیان پھنسا ہوا گوشت کھا لے