’’جب امام صاحب ایک طرف ہوں اور صا حبین دوسری طرف تو مفتی کو اختیار دیا جائے گا، اور اگر صاحبین میں سے کوئی ایک امام صاحب کے ساتھ ہوتو پھر ان دوکا قول لیا جائے گا، مگر جب مشائخ ایک کے قول پر اتفاق کر لیں تو مشائخ کی پیر وی کرے، جیسا کہ فقیہ ابو اللیث سمر قندی ؒ نے کئی مسائل میں امام زفر ؒ کا قول اختیار کیا ہے (بحر: ۶/۲۶۸، فتاویٰ تاتارخانیہ ۱/۸۲)(جب مشائخ صاحبین میں سے ایک کا قول اختیار کر سکتے ہیں جوصورت ثانیہ ہے تو ثابت ہواکہ اس صورت میں بھی امام صاحب کا قول فتویٰ کے لیے متعین نہیں ہے)۔
۲۔ اور علامہ ابنِ نجیم ؒ اپنے رسالہ رفع الغشاء في وقت العصر والعشاء میںلکھتے ہیں:
’’صاحبین کے قول کو یا ان میں سے کسی ایک کے قول کو امام صاحب کے قول پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔ ہاں کوئی وجہ ہوتو ترجیح دی جاسکتی ہے اور وجوہ تین ہو سکتی ہیں۔
۱۔ امام صاحب کی دلیل کی کمزوری۔
۲۔ ضرورت وتعامل، مزارعت ومساقات کے مسائل میں صاحبین کے قول کی ترجیح اسی وجہ سے ہے۔
۳۔ صاحبین کا اختلاف، اختلافِ عصروزمان ہو، اور یہ یقین ہو کہ اگر امام صاحب بدلے ہوئے احوال بچشمِ خود دیکھتے جو صاحبین کے زمانے میں پیش آئے تو آپ ضرور صاحبین کی موافقت کرتے جیسے صاحبین کے نزدیک گواہوں کی ظاہری دین داری پر قاضی کا فیصلہ کر نا درست نہیں، تزکیہ ضروری ہے۔ ‘‘(رسائلِ ابن نجیم: ص: ۴۵) (اس عبارت سے بھی ثابت ہواکہ صاحبین میںسے کسی ایک کے قول کو بعض صورتوں میں ترجیح دی جاسکتی ہے، اور یہی صورتِ ثانیہ ہے)
۳۔ اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے جو محقق علامہ قاسم ؒ نے اپنی کتاب التصحیح والتر جیح للقدوري میں کہی ہے کہ:
’’علاوہ ازیں مسلکی مجتہدین کا دور اس وقت تک تکمیل پذیر نہیں ہوا جب تک انھوں نے تمام اختلافی مسائل میں غوروفکر نہیں کر لیا اور ترجیح و تصحیح کا کام پایئہ تکمیل تک نہیںپہنچا دیا، چناںچہ ان کی تصنیفات امام ابوحنیفہ ؒ کے قول کی تر جیح اور اس کو اختیار کرنے کی شہادت دیتی ہیں، بجز معدودے چند مسائل کے، جن میں انھوں نے صاحبین کے قول پر یا ان میں سے کسی ایک کے قول پر اگر چہ دوسرا امام صاحب کے ساتھ ہو، فتویٰ دینے کو پسند کیا ہے، جیسا کہ انھوں نے ان مسائل میں صاحبین میں سے کسی ایک کا قول اختیار کیا ہے جن میں امام صاحب سے صراحتاً کوئی قول مروی نہیں ہے۔ انہی اسباب کی وجہ سے جن کی طرف قاضی خان نے اشارہ کیاہے، بلکہ مشائخ نے سب ائمہ کے اقوال کی موجودگی میں امام زفر ؒ کے قول کو اختیار کیاہے اسی قسم کے اسباب کی وجہ سے، اور ان مشائخ کی تر جیحات وتصحیحات آج بھی موجود ہیں۔ پس ہمارے