متفق نہیں ہیں تو اس صورت میں بھی بظاہر امام صاحب ہی کے قول کو ترجیح ہو گی۔
ب۔ اور رہی وہ صورت جبکہ صاحبین امام صاحب کے خلاف ہوں، اور وہ دونوں کسی ایک حکم پر متفق ہوں، اور صورتِ حال یہ ہوگئی ہو کہ ایک طرف امام صاحب ہوں اور دوسری طرف صاحبین، تو کہاگیا کہ امام صاحب کے قول کو ترجیح دی جائے گی اور یہ امام عبداﷲ بن المبارک1 کاقول ہے، اور کہاگیا کہ مفتی کو اختیار ہوگا، فتاویٰ سراجیہ کے قول: والأول أصح إذا لم یکن المفتي مجتھدا کے مفہوم مخالف سے دوسرے قول کی یعنی تخییر والے قول کی ترجیح سمجھ میں آتی ہے، اس صورت میں جب کہ مفتی مجتہد ہو۔
فائدہ: اور اختیار ہونے کامطلب یہ ہے کہ مجتہد مفتی دلیل میں غوروفکر کرے، اور جو کچھ اس کی سمجھ میں آئے اس پر فتویٰ دے، اس پر متعین طورپر امام صاحب کے قول پر فتویٰ دینا ضروری نہیں ہے(تمت الفائدۃ)
اور اسی قول کی حاوی میں بھی وَالأصح أن العبرۃ لقوۃ الدلیل کہہ کر تصحیح کی گئی ہے، کیوں کہ دلیل کی قوت کا لحا ظ کرنا مجتہد مفتی کے شایانِ شان ہے۔ پس جس صورت میں صاحبین امام صاحب کے خلاف ہوں تو تین قول ہوگئے۔
پہلا قول: بغیر اختیار کے امام صاحب کے قول کی پیر وی کر نا۔
دوسراقول: ہر مفتی کو اختیار ہو نا کہ جس قول پر چاہے فتویٰ دے۔
تیسراقول: اور وہی زیادہ صحیح ہے کہ مجتہد مفتی اور غیر مجتہد مفتی کے درمیان فرق ہے۔ قاضی خان کی بھی یہی پختہ رائے ہے، جیسا کہ ابھی آرہاہے، اور یہ تیسرا قول بظاہر پہلے دو قولوں میں
تطبیق بھی ہے، اس طرح کہ امام صاحب کی پیروی والے قول کوغیر مجتہد مفتی پر محمول کیا جائے اور تخییر والے قول کو مجتہد مفتی پر محمول کیا جائے۔
نوٹ: اور وہ ضابطہ جو بیان کیاگیا ہے کہ جب کسی مسئلے میں امام صاحب کاکوئی صریح قول موجود نہ ہو تو امام ابویوسف ؒ کے قول کو مقدم کیا جائے گا، پھر امام محمد ؒ کے قول کو إلی آخرہ، یہ ضابطہ بظاہر غیر مجتہد مفتی کے لیے ہے، اور مجتہد مفتی