لیے وہ حیلہ بھی درست نہیں۔
اور یہ خیال کہ اجرت یانذرانہ جائز نہ ہوگا تو تراویح کے نظام میں یاحفظِ قرآن کے نظام میں خلل واقع ہوگا درست نہیں، تراویح تو چھوٹی سورتوں سے بھی قائم ہوسکتی ہے، اور جن علاقوں میں حافظ کو کچھ نہیں دیا جاتا وہاں بھی بچے خوب قرآن یاد کر تے ہیں، بلکہ یہ نذرانہ ہی حفظِ قرآن کو نقصان پہنچا تا ہے۔ ایسے حفاظ صرف رمضانی حافظ ہو کر رہ جاتے ہیں، اور حفظِ قرآن کاجو اصل مقصد ہے وہ فوت ہوجاتا ہے۔
اسی طرح سامع کے لیے اجرت لینا بھی درست نہیں ہے۔ اور امداد الفتاویٰ: ۱/۴۹۶سوال نمبر: ۴۲۴پر جو جواز کافتویٰ ہے، اس سے حضرت تھانوی قدس سرہ نے التذکیر حصہ سوم، التہذیب نمبر: ۳، ص: ۸۶ میں رجوع فرمالیا ہے۔ نیز فتاویٰ دارالعلوم دیو بند (جدید) ۴/۲۹۵میں سامع کی اجرت کے عدمِ جواز کا فتویٰ ہے۔ (فائدہ ختم ہوا)
تیسری مثال: سرور عالم ﷺ کی شان عالی میں گستا خی کرنے والے کی توبہ مقبول ہے یا نہیں؟ فتاویٰ بزازیہ (برحاشیہ عالم گیری: ۶/۳۲۲)میں منقول ہے کہ ہمارے نزدیک اس کا قتل واجب ہے، توبہ مقبول نہیں ہے۔ اگرچہ وہ اسلام قبول کر لے۔ صاحبِ بزازیہ 1 نے یہ بات قاضی عیاض مالکی 2 کی الشفاء اور ابن تیمیہ حنبلی 3 کی الصارم المسلول
کی طرف منسوب کی ہے۔ 1
پھر بعد کے اکثر فقہانے اس کی پیروی کی ہے، یہاں تک کہ خاتم المحققین علامہ ابن الہمام 2 اور الدرروالغرر 3 کے مصنف نے بھی یہی بات لکھی ہے۔ حالاںکہ شفاء اور صارم میں جوبات ہے وہ یہ ہے کہ یہ شوافع اور حنابلہ کا مذہب ہے، اور امام مالک ؒ کی دو روایتوں میں سے ایک روایت ہے۔ اور ہمارا مذہب قطعیت کے ساتھ یہ نقل کیا ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہے۔ اور یہی بات قدمائے احناف کی کتابوں میں مذکور ہے۔ امام ابو یوسف ؒ کی کتاب الخراج 4 امام طحاوی ؒ کی مختصر کی شرح اور سغدی 5 کی النتف الحسان وغیرہ فقہ حنفی کی کتابوں میں یہی بات مذکور ہے۔ میں نے (علامہ شامی نے) اس کی خوب وضاحت کردی ہے۔ اپنے ایک رسالے میں جس کا نام ہے تنبیہ الولاۃ والحکام علی أحکام شاتم خیر الأنام أو أحد أصحابہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام 1 یہ رسالہ اپنے موضوع پر اتنا مفصل ہے کہ پہلے کسی نے اتنی تفصیل سے نہیں لکھا ہے۔