حالیکہ ضرورت کا اس صورت میں تحقق نہیں ہے۔
صدیاں بھی گزر جائیں اور کوئی کسی کو محض تلاوت کے لیے اجرت پر نہ لے تو بھی کسی قسم کا ضررنہیں ہے۔ بلکہ ضرر تو اس قسم کے اجارے میں ہے۔ قرآن کریم کمائی کا ذریعہ اور پیشہ بن کر رہ گیا ہے، کوئی قاری لوجہ اﷲ قرآن پڑھتا ہی نہیں۔ جو پڑھتا ہے اجرت کے لیے پڑھتاہے، جوخالص ریا (نمود) ہے، کیوں کہ ریا کی حقیقت غیراﷲ کے لیے عمل کرناہے۔ پس ثواب کہاں ملے گا؟ اور ایصالِ ثواب کس چیز کا کرے گا؟ امام قاضی خان ؒ فرماتے ہیںکہ ’’ذکر کے عوض میں اجرت لینا ثواب کے استحقاق کو ختم کر دیتا ہے۔‘‘
علامہ ابن الہمام ؒ 1 نے بھی فتح القدیر (۱/۲۱۶) میں موذن کی اجرت کی بحث میں ایسا ہی لکھا ہے، اور اگر ایصالِ ثواب کے لیے قرآن پڑھوانے والے کو معلوم ہو جائے کہ ثواب نہیں ملے گاتو وہ دھیلا بھی نہ دے!
الغرض ایصالِ ثواب کے لیے اجرت پر قرآن پڑھوانے والے ذکر وقرآن کے ذریعے جہنم کا ایندھن جمع کرتے ہیں، لوگ اس کو کارِ ثواب تصور کرتے ہیں حالاں کہ یہ عظیم ترین برائی ہے، اور یہ برائی صحتِ اجارہ کے قول پر مرتب ہوتی ہے، نیز ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کرانے میں اور بھی متعدد برائیاں ہیں، مثلاً: یتیموں کا مال کھانا، ان کے مکان میں ان کے فرش کو استعمال کرنا، چلاچلا کر سونے والوں کی نیندکو حرام کردینا، ڈھول بجانا، گاناگانا، عورتوں اور مردوں کا اکھٹا ہونا وغیرہ خطرناک منکرات ہیں، جن کی میں نے (علامی شامی نے) اپنے ایک رسا لے میں جس کا نام شفاء العلیل وبل الغلیل في بطلان الوصیۃ بالختمات والتھالیل 1 ہے، خوب وضاحت کردی ہے اور استدلال میں فقہا کے اقوال پیش کیے ہیں۔ اس رسالے پر فقہائے معاصرین کی تقریظات ہیں، جن میں سب سے بڑے خاتمۃ الفقہا، خاتمۃ العباد الناسکین، شہر قاہرہ کے مفتی، درمختار کے بہترین حاشیہ نگار، استاذی مرحوم سیداحمدطحطاوی ؒ 2 ہیں۔
فائدہ: ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کا جوحکم اوپر بیان کیاگیا ہے وہی حفاظ کی اجرت یا نذرانے کاہے، یعنی رمضان شریف میں تراویح میں جو حفاظ قرآن سناتے ہیں، اور اس پر نذرانہ لیتے ہیں وہ درحقیقت اجرت ہے، کیو ں کہ فقہی ضابطہ ہے کہ المعروف کالمشروط یعنی جس علاقے میںیا جس مسجد میں دینے لینے کا رواج ہے وہاں طے کیے بغیر نذرانہ (ہدیہ) لینا بھی اجرت ہی ہے جونا جائز ہے، اور یہ حیلہ کر ناکہ ایک دو نمازیں حافظ کے ذمے کردی جائیں دو شرطوں کے ساتھ درست ہو سکتا ہے۔ ۱: تنخواہ طے کی جائے، ورنہ اجارہ فاسد ہوگا، ۲: تراویح میں قرآن سنانا مشروط معروف نہ ہو، اگر تراویح میں قرآن نہ بھی سنائے تب بھی مقررہ تنخواہ ملے، ظاہر ہے کہ مذکورہ حیلے میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں اس