چوتھی مثال: مرتہن رہن کی ہلا کت کا دعویٰ کرے تو ضمان کس طرح آئے گا؟ملاخسرونے دررالحکام میں اور ابنِ ملک 2 نے علامہ ابن الساعاتی کی مجمع البحرین کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ اگر مرتہن گواہوںکے بغیر ہلاکت کادعویٰ کرے تو ضمان واجب ہوگا۔ ملاخسرو لکھتے ہیں کہ:
(وضمن) المرتھن (بدعوی الھلاک بلا بینۃ)، یعني إذا ادّعی المرتھن الھلاک ضمن إن لم یقم البینۃ علیہ (مطلقا) أي سواء کان من الأموال الظاھرۃ، کالحیوان والعبید والعقار أو من الأموال الباطنۃ کالنقدین والحلي والعروض وقال مالک: یضمن في الأموال الباطنۃ فقط، (دررالحکام: ۲/۲۴۹)
’’اگر مرتہن گواہوں کے بغیر رہن کی ہلاکت کا دعویٰ کرے تو وہ ضامن ہوگا، یعنی جب مرتہن رہن کی ہلاکت کا دعویٰ کرے تو وہ اس شرط کے ساتھ ضامن ہوگا کہ ہلاکت پر گواہ نہ ہوں، یہ حکم مطلقاً ہے، یعنی رہن خواہ ایسی چیز ہو جو چھپائی نہ جا سکتی ہو، جیسے جانور، غلام اور جائیداد، یا چھپائی جاسکتی ہو، جیسے دراہم ودنانیز، زیورات اور سامان۔ اور امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ صرف دوسری قسم کے اموال میں ضمان آئے گا۔
علامہ تمر تاشی نے بھی تنویرالأ بصار 3 میں ان دونوں حضرات کی پیروی کی ہے۔
ان سب حضرات کی تحریروں کامقتضا دوباتیں ہیں۔ رہن کی جو بھی قیمت ہو۔ خواہ دین سے کم ہویا زیادہ یا مساوی اس کا ضمان واجب ہوگا۔ علامہ خیرالدین رملی نے بھی یہی فتویٰ 1 دیاہے اگر رہن کی ہلاکت پر گواہ موجود ہوتو کوئی ضمان واجب نہ ہوگا۔ حالاںکہ یہ دونوں باتیں امام مالک ؒ کا مذہب 2 ہیں، اور ہمارامذہب یہ ہے کہ رہن کی قیمت اور قرض میں جوکم ہوگا اس کا ضمان واجب ہوگا، خواہ رہن کی ہلاکت پر گواہ موجودہوں یا گواہوں کے بغیر صرف مرتہن کی قسم سے ہلاکت ثابت ہوئی ہو۔ دررالحکام کے حاشیہ شرنبلالیہ 3 میں حقائق المنظومہ 4 کے حوالے سے اس کی پوری وضاحت کردی گئی ہے، اور میں نے (علامہ شامی نے) 5 بھی اپنے حاشیہ ردالمحتار میں اس پرتنبیہہ کی ہے اوریہ بھی بیان کیا ہے کہ کس نے مذہبِ حنفی کے مطابق فتویٰ دیا ہے اور کس نے مخالف مذہب قول کی تردیدکی ہے۔
اور بھی مثالیں: اور اس قسم کے تسامحات کی جن کاہم نے تذکرہ کیا بہت نظائر ہیں، جن میں صاحبِ بحر صاحبِ نہر صاحبِ منح الغفار
اور صاحبِ درمختار 1 وغیرہم کا اتفاق ہوتا ہے، حالاںکہ وہ مسائل سہو ہوتے ہیں۔