سوال: کیا انسان کے لیے اپنی ذات کے معاملے میں ضعیف روایت پر عمل کرنا جائز ہے؟
جواب: یہ ہے کہ جائز ہے بشرطیکہ وہ شخص ذی رائے ہو (یعنی مجتہد فی المذہب ہو)، اور اگر وہ شخص عام آدمی ہو (جس میں غیر مجتہد مفتی بھی داخل ہے) تو اس کا حکم میں نے نہیں دیکھا، مگرجواز کو ذی رائے کی قید کے ساتھ مقید کرنے کا مقتضٰی یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے، خزانۃ الراویات میں لکھا ہے کہ:
’’وہ عالم جو کہ نصوص اور احادیث کے معانی جانتا ہے، اور فہم وفراست رکھنے والوں میں سے ہے تو اس کے لیے ضعیف روایت پر عمل کرنا جائز ہے، اگر چہ وہ روایت اس کے مذہب کے خلاف ہو۔‘ ‘(بیری کی بات پوری ہوئی)
اور جواز کو ذی رائے یعنی مجتہد فی الذہب کی قید کے ساتھ مقید کرنا عام آدمی کو نکال دیتا ہے، جیساکہ بیری ؒنے فرمایا کہ ہے، کیوںکہ اس پر اس قول کی پیروی لازم ہے جس کی علما نے تصحیح کی ہے۔ مگر یہ بات ضرورت کی جگہ کے علاوہ میں ہے جیسا کہ ابھی آپ اس کو جان چکے ہیں۔
ایک سخت تعارض کا اشکال: پھر اگر کوئی کہے کہ یہ بات اس بات کے خلاف ہے جس کو آپ پہلے بیان کر چکے ہیں کہ مجتہد مفتی کے لیے بھی اس قول سے عدول جائز نہیں ہے جس پر امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کے تلامذہ متفق ہو۔مفتی کے لیے اس قول کے خلاف فتویٰ دینا جائز نہیں ہے اگر چہ وہ مفتی مجتہد اورماہر ہو، کیوں کہ وہ ائمہ تمام دلائل جانتے تھے، اور صحیح ثابت اور غیرصحیح دلائل کے درمیان انھوں نے امتیاز کر لیا تھا، اس مفتی کا اجتہاد ان اکا بر کے اجتہاد کو نہیں پہنچ سکتا، جیسا کہ ہم خانیہ وغیرہ کے حوالے سے یہ بات پہلے بیان کر آئے ہیں۔
مفصل جواب: تو میں جواب دوں گا کہ وہ بات اس شخص کے حق میں ہے جودوسروں کو فتویٰ دیتا ہے(وہ اگر مجتہد بھی ہو تب بھی اس کے لیے ائمہ ثلاثہ کے متفقہ مسلک سے عدول جائز نہیں ہے) اور اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں۔
۱۔ شاید یہ وجہ ہو کہ جب وہ مفتی جانتا ہے کہ ان اکابر کا اجتہاد زیادہ قوی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے سوالات کا اپنے کمزورترین اجتہاد پر مدار رکھے۔
۲۔ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ سائل اس مفتی کے پاس اس امام کامذہب معلوم کرنے آیا ہے جس کی وہ مفتی تقلید کرتا ہے، اس لیے اس مفتی پرلازم ہے کہ وہ اس مذہب کے مطابق فتویٰ دے جس کو دریافت کرنے کے لیے وہ مستفتی آیا ہے۔
اور اسی لزوم کی وجہ سے علامہ قاسم ؒ نے اپنے فتاویٰ میں ذکر کیا ہے کہ ان سے ایسے واقف کے بارے میں دریافت کیاگیا جس نے اپنے لیے وقف میں تغیر و تبدل کرنے کی شرط رکھی تھی، پھر اس نے وہ وقف اپنی بیوی کے نام کردیا، تو علامہ قاسم ؒنے جواب دیاکہ: