ہے کہ اپنے نزدیک جوقول راجح ہے اسی کے مطابق فتویٰ دے، یا حاکم کے لیے جائز ہے کہ وہ دو قولوں میں سے کسی ایک قول پر فیصلہ کرے ،اگر چہ وہ قول اس کے نزدیک راجح نہ ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حاکم اگر مجتہد ہے تو اس کے لیے فیصلہ کرنا اور فتویٰ دینا جائز نہیں ہے۔ مگر اسی قول کے مطابق جو اس کے نزدیک راجح ہے، اور اگر وہ مقلد ہے تو اس کے لیے جائز ہے کہ اپنے مذہب کے مشہور قول کے مطابق فتویٰ دے، اور اس کے مطابق فیصلہ کرے، اگر چہ وہ قول اس کے نزدیک راجح نہ ہو۔محکوم بہ 1 (یعنی حکم) کی ترجیح میں اپنے اس امام کی پیروی کرتے ہوئے جس کی وہ تقلید کرتا ہے، جیسا کہ وہ فتویٰ میںاس امام کی تقلید کرتا ہے۔ اور فتویٰ اور فیصلے میںخواہش کی پیروی کرنا بالاجماع حرام ہے، اسی طرح مرجوح قول کے مطابق فیصلہ کرنا اور فتویٰ دینابھی اجماع کے خلاف ہے۔‘‘
اور البحر الرائق (۷/۹) میں ذکر کیا ہے کہ اگر کسی مختلف فیہ مسئلے میں قاضی اپنا مذہب بھول کر اپنی رائے کی خلاف فیصلہ کردے تو وہ امام اعظم کے نز دیک نافذ ہو جائے گا۔ اور بالقصد فیصلہ کرنے کی صورت میں دو روایتیں ہیں، اور صاحبین کے نزدیک دونوں صورتوں میں نافذ نہ ہوگا، اور ترجیح میںاختلاف ہے، فتاویٰ خانیہ میں ہے کہ امام مالک کی دوروایتوں میں سے اظہر روایت فیصلے کا نفاذ ہے، اور اسی پر فتویٰ ہے۔ اور ایسا ہی فتاویٰ صغریٰ میں ہے۔
اور معراج الدرایۃ میںمحیط کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے کہ فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے، اور ایساہی ہدایہ میں ہے، او رفتح القدیر (۶/۳۹۷) میں ہے کہ:
’’فتویٰ کے سلسلے میں فقہا میںاختلاف ہے، اور اسی زمانے میں زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ صاحبین کے قول پر فتویٰ دیا جائے، کیوں کہ جو قاضی بالقصد اپنا مذہب چھوڑ تا ہے وہ ناروا خواہش ہی کی وجہ سے چھوڑ تا ہے ، کسی اچھے مقصد سے نہیں چھوڑ تا ہے، او ررہا بھولنے والا تو عہدہ سونپنے والے سلطان نے اس کو اسی لیے عہدہ سپرد کیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق فیصلہ کرے، مذہبِ غیر کے مطابق فیصلہ نہ کرے ۔ یہ ساری تفصیل مجتہد فاضی کے بارے میںہے۔ اب رہا مقلد قاضی تو بادشاہ نے اس کواسی لیے عہدہ سونپا ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب کے موافق فیصلہ کرے، اس لیے وہ مخالفت کا اختیار نہیں رکھتا۔پس وہ اس حکم کے تعلق سے معزول سمجھا جائے گا۔ (فتح اور بحر دونوں کی عبارتیں پوری ہوئیں)
پھر ابنِ نجیم ؒنے مقلد قاضی کے سلسلے میں مشائخ کی مختلف عبارتیں ذکر کی ہیں، اور جس پہلو پر ان کی گفتگو فروکش ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر قاضی مذہبِ غیر یا ضعیف روایت پریا ضعیف قول پر فیصلہ کرے گا تو وہ نافذ ہوگا، اور ان کی اس سلسلے میں سب سے مضبوط دلیل وہ عبارت ہے جو فتاویٰ بزازیہ میں شرحِ طحاوی سے منقول ہے کہ:
’’جب قاضی مجتہد نہ ہو، اور کسی مفتی کے فتویٰ پر فیصلہ کر دے، پھر یہ بات ظاہر ہو کہ وہ فیصلہ اس کے مذہب کے خلاف