تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
اے نبی! آپ کے لیے اللہ کافی ہے اور یہ آپ کے تابعدار ایمان والے آپ کےلیے کافی ہیں۔ یعنی کفایتِ حقیقیہ کے اعتبار سے آپ( صلی اﷲ علیہ وسلم) کے لیے اللہ کافی ہے اور یہ ایمان والے جن میں حضرت عمر جیسا بہادر آپ کو دیا جارہا ہے یہ کفایتِ ظاہرہ ہے کہ آج دشمن پر رعب پڑ گیا کیوں کہ اُن کی بہادری اور طاقت پورے عرب میں مشہور تھی۔لہٰذا سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جب ہم حق پر ہیں تو اسلام کو پوشیدہ کیوں رکھیں اور بیس بیس صحابہ کی دو قطاریں بنائیں، ایک قطار میں سب سے آگے خود ہوئے اور دوسری میں سیدالشہدا ء حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو رکھا اور درمیان میں سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کو لے کر کعبۃ اﷲآئے اور نماز ادا کی۔ اس کے بعد جن لوگوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی تھی اور ان کو مشورہ دیا تھا کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو قتل کردو ان میں سے ایک ایک کے پاس گئے اور کہا کہ کم بختو! ایسی پاکیزہ شخصیت کے بارے میں تم قتل کی سازش کر رہے تھے اور مجھ کو اس میں شریک کرنا چاہتے تھے۔ اب تمہاری خیریت نہیں ہے اور ہر ایک کو اُٹھا کرپٹخا اور مُکا گھونسہ مار مار کر بھو سہ بنادیا،اور جب ہجرت کی تو کفار کے مجمع کے سامنے تلوار دکھا کر کہا کہ آج عمر ہجرت کر رہا ہے اور تنہا جارہا ہے جس کو اپنی بیوی کو بیوہ کرنا ہو اور اپنے بچوں کو یتیم کرنا ہو وہ آئے اور میرا مقابلہ کرے۔ کیا شان تھی! اﷲ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے۔ کہاں سے کہاں پہنچے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی کے صدقہ میں اﷲ تعالیٰ نے ان کو خلیفۂدوم بنایا۔ ساڑھے دس سال حکومت کی ۔ یہ ان کے جذب کا واقعہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنا بناتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہی نے جذب فرمایا،ورنہ جو قتل کی سازش میں شامل ہو وہ کیسے اسلام لاسکتا تھا؟ مگر بس وہی بات ہے ؎نہ میں دیوانہ ہوں اصغرؔ نہ مجھ کو ذوقِ عریانی کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو ایک تابعی کے جذب کا واقعہ اب تیسرا جذب ایک تابعی کا سن لیجیے۔ جذب تو بہت لوگوں کو ہوا ہے کہاں تک