تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
ہے ۔ وہ تھانہ بھون میں مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ ہیں ۔ بس انہوں نے فوراً سفر کیاا ور وہاں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن بیعت ہونے سے پہلے داڑھی منڈائی جو تھوڑی تھوڑی نکل آئی تھی۔ حضرت نے پوچھا کہ جب توبہ کرنے آئے ہو تو داڑھی کیوں منڈائی۔ کہا کہ آپ حکیم الامت ہیں میں مریض الامت ہوں آپ کو پورا مرض دکھا دیا اب ان شاء اﷲ اس پر اُسترا نہیں لگے گا۔ بیعت ہو کر واپس آئے، داڑھی رکھی شراب چھوڑی۔ یہ شخص اتنا بڑا ولی اﷲ ہوا کہ میرے شیخ و مرشد شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ مرنے سے تین دن پہلے ان پر گریہ طاری ہوا۔ اپنے گھر کے صحن میں ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تڑپتے جاتے تھے یہاں سے تڑپتے ہوئے وہاں اور وہاں سے تڑپتے ہوئے یہاں۔ رو رو کر جان دے دی۔ دل پر خدا کا ایسا خوف طاری ہوا کہ شہید ہوگئے۔ اس کو شہادت کہتے ہیں۔ جس کا پتّہ خدا کے خوف سے پھٹ جائے وہ شہید ہوتا ہے۔ اﷲ کے جذب سے ولی اﷲ ہوئے، اﷲ ہی نے توفیق دی، اور آخر میں اپنے دیوان میں تین شعر بڑھا گئے ۔ شعر کیا ہیں ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا ہے ؎مری کھل کر سیہ کاری تو دیکھو اور ان کی شانِ ستّاری تو دیکھو گڑا جاتا ہوں جیتے جی زمیں میں گناہوں کی گراں باری تو دیکھو اب تیسرا شعر سنیے جو نچوڑ ہے اور حاصل ہے تمام شعروں کا ؎ہوا بیعت حفیظؔ اشرف علی سے بہ ایں غفلت یہ ہشیاری تو دیکھو ان کے یہ تین شعر میرے شیخ سنایا کرتے تھے۔ دیوانِ حفیظ میں یہ اشعار دیکھ لیجیے ان کا دیوان مشہور ہے۔ رئیس ا لمتغزلین جگر مراد آبادی کے جذب کا واقعہ اب آخری قصہ بیان کر کے بیانِ جذب ختم کرتا ہوں۔آپ نے نام سُنا ہوگا