تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
پہنچ سکتا ۔ جس پر ابتدا میں جذب غالب ہو یعنی جس کو پہلے اﷲ تعالیٰ جذب کرے، بعد میں وہ خدا کا راستہ محنت و مشقت سے طے کرے اس کا نام مجذوب سالک ہے یعنی اس کو جذب پہلے نصیب ہوا سلوک بعد میں نصیب ہوا اور جو پہلے سلوک شروع کرے، عبادت کی محنت مشقت شروع کرے بعد میں اﷲ اس کو جذب کرے ، اپنی طرف کھینچ لے اس کا نام سالک مجذوب ہے یعنی پہلے یہ اﷲ کے راستے میں چلا ، محنت و مشقت کی،پھر خدا ئے تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ بہر حال جذب ہو یا سلوک دونوں راستے اﷲ تک پہنچاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بعضوں کو اﷲ تعالیٰ پہلے ہی اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور بعضوں کو سلوک کی توفیق پہلے ہوتی ہے بعد میں اﷲ تعالیٰ ان کو جذب کرتا ہے۔معلوم ہوا کہ بغیر حق تعالیٰ کے جذب کے کوئی حق تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا ۔ طریق جذب کی ایک اور مثال اس کی ایک مثال حکیم الامت مجدد ا لملّت حضرت مولانا شاہ محمداشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے ارشاد فرمائی کہ ایک فقیر کسی بادشاہ کے محل شاہی کے سامنے سے جارہا تھا۔ بادشاہ نے بالا خانہ سے ایک کمند پھینکی اور کہا اے فقیر! اس میں بیٹھ جا، میں تجھ سے ملنا چاہتا ہوں۔ اور سپاہیوں سے کہا اس کو اُوپر کھینچ لو۔ وہ فقیر جب بادشاہ سے ملا تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم اﷲ تعالیٰ تک کیسے پہنچے اس نے کہا کہ جناب جیسے میں آپ تک پہنچا ۔آپ نے کمند پھینکی میں اس پر بیٹھ گیا۔ آپ نے سپاہیوں سے کھنچوا لیا۔ تو جس طرح میں آپ تک پہنچا ایسے ہی جس بندے کو اﷲ تعالیٰ جذب فرماتے ہیں اس کو زمین پر توفیقات کی کمند بھیجتے ہیں ، اپنی طرف کشش اس کے دل میں پیدا کر دیتے ہیں اور وہ ا ﷲ کا ہوتا چلا جاتا ہے ؎سن لے اے دوست جب ایام بھلے آتے ہیں گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں نہ میں دیوانہ ہوں اصغؔر نہ مجھ کو ذوقِ عریانی کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو