تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
قَتَلْتُ فِیْ جَاہِلِیَّتِیْ خَیْرَ النَّاسِ وَ فِیْ اِسْلَامِیْ شَرَّ النَّاسِ 33؎میں نے اپنے زمانۂ کفر میں، زمانۂ جاہلیت میں دنیا کے ایک بہترین انسان کو قتل کیا تھا اوراپنے زمانۂ اسلام میں میں نے بدترین انسان کو قتل کیا جو نبوت کادشمن تھا اور جھوٹا نبی بنا ہوا تھا۔ جس کو اﷲ تعالیٰ اپنا بناتا ہے اس کی بگڑی بنانا اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہے ؎حُسن کا انتظام ہوتا ہے عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے آہ! ذلّت کو اﷲ تعالیٰ نے کس طرح عزت سے تبدیل کردیا۔ اس لیے دعا کیجیے کہ اے خدا! ہماری رسوائیوں اور ذلتوں کے اندھیروں پر اپنے آفتابِ عزت کی کچھ شعائیں ڈال دیجیے تاکہ ہماری ذلّتیں عزتوں سے تبدیل ہوجائیں۔ پیر چنگی کے جذب کا قصہ حضرت جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مثنوی میں ایک چنگ یعنی سارنگی بجانے والے کا قصہ لکھا ہے کہ یہ سارنگی بجایا کرتے تھے، بہترین آواز تھی، ہر وقت گانا گارہے ہیں، سارنگی بجا رہے ہیں ، آواز ایسی کہ بچے اور جوان، مرد اور عورت ہر وقت گھیرے رہتے ہیں۔ کوئی حلوہ لا رہا ہے ، کوئی بریانی لا رہا ہے، کوئی کباب لا رہا ہے، پیسے برس رہے ہیں۔ لیکن جب بڈھے ہو گئے اور آواز خراب ہو گئی تو ساری دنیا ہٹ گئی، سب لوگ بھاگ گئے کہ اب یہ پھوٹا ربانہ، کوّے کی سی آواز کون سنتا ہے۔اب کوئی پوچھتا نہیں یہاں تک کہ فاقہ کی نوبت آگئی ، بھوکوں مرنے لگے تب مدینہ پاک کے قبرستان میں جا کر ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں لیٹ گئے اور اﷲ تعالیٰ کو اپنا بھجن سنا نا شروع کیا۔ سا رنگی بھی بج رہی ہے اور بھجن بھی سنارہے ہیں اور کیا سنارہے ہیں کہ اے اﷲ! جب میری آواز اچھی تھی تو آپ کے بندے مجھے حلوہ دیتے تھے، مَرد و زن ، بوڑھے، بچے سب گھیر لیتے تھے اب میری آواز خراب ہوگئی تو آپ کی مخلوق نے مجھ سے بے وفائی کی۔میں ساری دنیا سے مایوس ہو کر اب آپ کے دروازے پر آپڑا _____________________________________________ 33؎روح المعانی: 121/6،الماۤئدۃ(53)، داراحیاءالتراث،بیروت