تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
بیان کروں گا۔ ایک تابعی جن کا نام زاذان ہے۔ یہ پہلے لکڑی بجا بجا کر گانا گاتے تھے مگر آواز غضب کی تھی۔ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اﷲ ابنِ مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس طرف سے گزرے تو یہ لکڑی بجا بجا کر گا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا مَا اَحْسَنَ ھٰذَا الصَّوْتَ کیا ہی اچھی آواز ہے! کاش کہ اس آواز سے یہ قرآن پڑھتا۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ آواز اس کے کانوں تک پہنچادی جب کہ تماشائیوں کا مجمع لگا ہوا تھا اور واہ واہ مرحبا مرحبا کے نعرے بلند ہو رہے تھے لیکن جب اﷲ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے تو خود راستے کھول دیتا ہے ؎سُن لے اے دوست جب ایام بھلے آتے ہیں گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں بس آواز کا پہنچنا تھا کہ انہوں نے گانا چھوڑ کر پوچھا کہ مَنْ ھٰذَا یہ کون ہے۔ تماشائیوں نے کہا ھٰذَا صَاحِبُ رَسُوْلِ اللہِ یہ اﷲ کے رسول کے ساتھی ہیں۔ یہ ہے صحبت کا مقام۔ ساتھ رہنے سے یہ انعام ملتا ہے، صحابہ کا لفظ قرآن و حدیث میں ہمیشہ باقی رہے گا اور صحبت کی اہمیت کو ظاہر کرتا رہے گا۔جو بنا ہے صحبت سے بنا ہے۔ نبی کا صحبت یافتہ صحابی ہوتا ہے، صحابی کی صحبت اٹھانے والا تابعی اور تابعی کی صحبت اٹھانے والا تبع تابعی۔ اتنی اہمیت تھی صحبت کی کہ لوگ صحابہ کو دیکھ کر کہتے تھے ھٰذَا صَاحِبُ رَسُوْلِ اللہِ یہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔ جو اﷲ والوں کے ساتھ رہتا ہے سنتِ صحابہ ادا کر رہا ہے۔ پوچھا کہ ان کا کیا نام ہے؟ بتایا عبد اﷲ ابنِ مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ۔ پوچھا اَیْشْ قَالَ انہوں نے کیا کہا؟ تماشائیوں نے بتایا کہ انہوں نے فرمایا کہ کاش اس پیاری آواز سے یہ قرآن شریف کی تلاوت کرتا، بس یہ سننا تھا کہ ؎جی اٹھے مردے تری آواز سے اسی وقت لکڑی توڑی اور عبد اﷲ ابنِ مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قدموں میں آگئے اور قدموں سے لپٹ کر رونے لگے اور عبد اﷲ ابنِ مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی رونے لگے۔ کسی نے عرض کیا کہ آپ کیوں روتے ہیں فرمایا کہ جس گناہ گار نے توبہ کرلی وہ اﷲ تعالیٰ کا