تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
علاماتِ جذب تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ جس کو حق تعالیٰ جذب فرماتے ہیں اس کو پتا چل جاتا ہے کہ مجھ کو اﷲ تعالیٰ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں، اپنا بنا رہے ہیں۔ ارے میاں! اگر چھوٹا سا بچہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ رہا ہو تو کیا آپ کو پتا نہیں چل جاتا؟ تین من کا تگڑا ابا اور چھوٹا سا دس کلو کا بچہ اگر اس کا دامن پکڑ کر کھینچ رہا ہے تو اس تگڑے باپ کو محسوس ہوتا ہے یا نہیں کہ میرا بچہ مجھ کو کھینچ رہا ہے؟ اتنی بڑی طاقت والا اﷲ تعالیٰ جس کو جذب فرمائے گا کیا اسے پتا نہیں چلے گاکہ مجھے اﷲ تعالیٰ یاد فرمارہا ہے، کھینچ رہا ہے، اپنا بنانا چاہتا ہے۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ جب اﷲ تعالیٰ جذب فرماتا ہے تو اس کا دل خود فیصلہ کرتا ہے کہ مجھے اﷲ تعالیٰ چاہ رہے ہیں۔ اگر وہ چاہے بھی کہ نماز کو نہ جاؤں تو بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر وہ چاہتا بھی ہے کہ اﷲ والوں کے پاس نہ جاؤں تو دل میں گھبراہٹ اور بے چینی پید اہوجاتی ہے، اس لیے حضرت فرماتے تھے کہ دل کو با لکل پتا چل جاتا ہے۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ نے جون پور میں حضرت حکیم الامت سے پوچھا تھا کہ حضرت! جب کوئی اﷲ والا بنتا ہے،صاحبِ نسبت بنتا ہے ، اس کو جذب نصیب ہوجاتا ہے تو کیا اس کو پتا چل جاتا ہے؟ اب سنیے حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا جواب ۔فرمایا کہ خواجہ صاحب! جب آپ بالغ ہوئے تھے تو آپ کو پتا چلا تھا یا نہیں کہ میں بالغ ہوگیا یا دوستوں سے پوچھنا پڑا تھا۔ جسم جب بالغ ہوتا ہے تو رگ رگ میں ایک جان آجاتی ہے یا نہیں ، ایک طاقت جدید محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح جب اﷲ تعالیٰ کسی کو جذب کرتا ہے اس کے دل کو اپنی نسبت نصیب فرماتا ہے تو اس کی روحانیت میں ایک جدید طاقت عطا ہوتی ہے۔ پھر وہ سارے عالم کو چیلنج کرتا ہے، سارے عالم کو اعلان کرتا ہے کہ اے دنیا والو! تم میرے پاؤں کو دنیاوی زنجیروں سے نہیں جکڑ سکتے ہو، جس کو مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس شعر میں تعبیر فرمایا ؎سر نگو نم ہیں رہا کن پائے من اے دنیا والو! جلال الدین رومی سر جھکا چکا ہے ، میرے پاؤں کو جکڑو،میرے قدموں کو تم