تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
تھی۔ سیدالشہداء حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ ابھی میں زندہ ہوں۔اگر نگاہ بدلی ہوئی دیکھوں گا تو یہیں ڈھیر کردوں گا۔وہ بھی اسد اﷲ تھے۔سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ دروازہ پر عمر آئے ہوئے ہیں، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فوراً خود ان کے پاس تشریف لے گئے۔یہ نہیں کہ صحابہ سے کہتے کہ تم لوگ ان سے ملو۔حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کو چالیس جنتی مردوں کی طاقت دی گئی تھی یعنی دنیا کے چار ہزار قوی مردوں کی طاقت دی گئی تھی اس لیے کوئی مشہور سے مشہور پہلوان کبھی آپ سے جیت نہیں سکا۔حضرت عمر ابھی ایمان نہیں لائے تھے،ننگی تلوار گلے میں لٹکائے ہوئے کھڑے ہیں مگر سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا حوصلہ تو دیکھیے کہ آپ نے ان کا دامن پکڑ کر کھینچا، چوں کہ رات میں دروازۂکعبہ کے سامنے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگ چکے تھے کہ یا اﷲ! دو عمر میں سے ایک کو اسلام عطا فرما، یا عمر ابنِ خطاب کو یا عمر ابنِ ہشام کو۔ اس وقت دائیں طرف حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے اور بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ حضرت عمر کو دیکھ کر آپ سمجھ گئے کہ دُعا قبول ہوگئی۔ نبی کو اپنی دعاؤں کی قبولیت پر کتنا اعتماد ہوتا ہے! آپ نے ان کا دامن پکڑ کر ایسا جھٹکا مارا کہ گھٹنوں کے بل گر گئے، ساری بہادری اور طاقت ناک کے راستہ نکل گئی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! کب تک جاہلیت میں رہو گے، کب تک اسلام قبول نہیں کرو گے، عرض کیا یا رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) آپ کی غلامی ہی میں تو داخل ہونے کے لیے آیا ہوں اور کلمہ پڑھا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ اس وقت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور صحابہ نے خوشی میں اتنی زور سے اﷲ اکبر کہا کہ کعبہ تک آواز پہنچ گئی اور اسی وقت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ ِ اِسْتَبْشَرَ اَھْلُ السَّمَاءِ بِاِسْلَامِ عُمَرَ 13 ؎آج عمر فاروق کے اسلام لانے سے فرشتوں میں خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ اور یہ وحی نازل ہوئی: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسۡبُکَ اللہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ 14؎ _____________________________________________ 13؎سنن ابن ماجۃ:106، باب فضل عمر، المکتبۃ الرحمانیۃ 14؎الانفال: 64