تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
آدابِ دوستی، آدابِ تقویٰ،آدابِ محبت اور ترکِ معصیت کی ہمت بھی عطا کر سکتا ہے۔ وہ ہمیں آدابِ بندگی بھی سکھا سکتا ہے۔ مانگو تو سہی، اُوپر سے فیصلہ تو کراؤ۔ ان شاء اﷲ پھر سب گندے خیالات خنّاس کی طرح نکل جائیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہو گئے۔ یہ محاورہ ہے، ورنہ گدھے کے سینگ نہیں ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کا وجود نہ رہے۔ حضرت جنید بغدادی کا واقعۂ جذب اب اس کے بعد حضرت جنید بغدادی کا واقعہ سنیے۔ یہ پہلے پہلوانی کی روٹی کھاتے تھے، ولی اﷲ نہیں تھے۔ ایک دن شاہِ بغداد نے اعلان کیا کہ آج جنید بغدادی پہلوانی دکھائے گا،ہے کوئی جو مقابلہ میں آئے۔ ایک سید صاحب بڑے میاں کانپتے ہوئے گردن ہلتی ہوئی کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں لڑوں گا ان سے ۔ سب نے قہقہہ لگایا۔ تالیاں بجائیں لیکن بادشاہ قانون سے مجبور تھا کہ جو آدمی خود کو مقابلے کے لیے پیش کردے اس کو کیسے کہہ دے کہ نہیں، تم نہیں لڑسکتے۔ لہٰذا بادشاہ نے سید صاحب کو اجازت دے دی ۔ سید صاحب ساٹھ پینسٹھ برس کے، جب دونوں کشتی کے لیے اترے تو حضرت جنید بغدادی بھی حیران ، بادشاہ بھی حیران،ساری رعایا ، ساری سلطنت کی پبلک حیران کہ یا اﷲ یہ بڈھا کیسے لڑے گا! جب بڈھا اترا تو اس نے جنید بغدادی سے کہا کہ اپنا کان یہاں لاؤ اور کان میں کہا کہ دیکھو میں تم سے جیت نہیں سکتا ہوں، بوڑ ھا ہوں، گردن ہل رہی ہے کمزور ہوں، دس دن سے کھانا نہیں کھایا لیکن میں سید ہوں، میرے بچوں کو بھی فاقہ ہے اگر تم آج اپنی عزت کو اﷲ کے نبی کے عشق و محبت میں قربان کردو اور ہار جاؤ تو یہ انعام مجھے مل جائے گا اور سال بھر کے لیے میری اور میرے بچوں کی روٹی کا انتظام ہوجائے گا۔ میرا قرضہ ادا ہوجائے گا اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم تم سے خوش ہوجائیں گے۔ کیا تم اے جنید اپنی عزت کو اولادِ رسول پر فدا نہیں کر سکتے؟ جنید بغدادی نے دل میں سوچا آج موقع اچھا ہے ؎محبت کی بازی وہ بازی ہے دانشؔ کہ خود ہار جانے کو جی چاہتا ہے بس بصد شوق جنید بغدادی نے دو چار ہاتھ ادھر اُدھر چلائے، اپنا کرتب دکھایا تاکہ بادشاہ کو