تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
مَاکَسَبُوْا کی تفسیر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا 37؎جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس گناہ کی نحوست سے شیطان اس کے دل پر اپنا اڈہ جما لیتا ہے کیوں کہ گناہ سے اندھیرا پیدا ہوتا ہے، چمگادڑا ندھیرے میں رہتا ہے، شیطان کس چمگادڑ سے کم ہے وہ بھی اندھیرے دل میں فوراً اپنا مرکز و ہیڈکوارٹر بنالیتا ہے۔ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ ہر وقت شیطان اس کو پھسلاتا رہتا ہے۔ ایک گناہ سینکڑوں گناہ کا ذریعہ بنتا ہے۔ بِبَعۡضِ مَاکَسَبُوۡا شیطان کو کوئی قدرت اﷲ نے اپنے خاص بندوں پر نہیں دی لیکن بِبَعۡضِ مَاکَسَبُوۡا بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اپنے بُرے کرتوت کی وجہ سے شیطان کے قبضہ میں آجاتا ہے کیوں کہ جب کوئی بچہ نافرمانی کر کے اپنے ابا سے دور ہوتا ہے تو غنڈے بد معاش اس کو قابو میں لے آتے ہیں ورنہ اگر کوئی شخص مضبوطی کے ساتھ اﷲ سے وابستہ ہو تو شیطان کی کوئی طاقت نہیں کہ اس کو اپنے قابو میں لاسکے، ایک معمولی بچہ اگر اپنے ابّا کی گود میں ہوتو ہے کسی کی مجال جو باپ سے چھین لے! باپ جان دے دے گا مگر بچے کو نہیں چھوڑے گا۔ پس جو شخص اﷲ تعالیٰ ارحم الراحمین کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہے تو کیسے کوئی ظالم غنڈا اسے چھین سکتا ہے۔ لہٰذا علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ جب دل میں اندھیرے چھا گئے اور شیطان نے اپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا تو پھر اسے بھگانے کا کیا طریقہ ہے؟ فرماتے ہیں کہ اندھیرے کو نور سے بدل دیجیے، شیطان روشنی میں نہیں رہتا لہٰذا جلدی سے توبہ کرلو ۔ اﷲ سے معافی مانگ لو کیوں کہ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَا مَجَالَ لَہٗ عَلٰی قَلْبِ ابْنِ اٰدَمَ آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے دل پر وہ اسی وقت طاقت سے قبضہ جماتا ہے جب کہ وہ گناہوں سے اندھیرا پیدا کرلیں، اور جب ندامت اور شرمندگی ہوجائے ، توبہ کرلے تو اس کے انوار سے پھر دل میں اجالا ہوجاتا ہے اور اجالا دیکھ کر شیطان بھاگ جاتا ہے۔ چمگادڑ کو حق _____________________________________________ 37؎اٰل عمرٰن:155