تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہت غم تھا کہ کفارِ مکہ ایمان کیوں نہیں لا رہے ہیں۔ اکثر ان میں ایسے تھے جو ایمان لانے سے منکر تھے تو اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جس کو سید محمود بغدادی آلوسی نے لکھا ہے کہ اِنَّ ھٰذِہِ الْاٰیَۃَ تَسْلِیَۃٌ للِّنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا غم دور کرنے کے لیے اور آپ کی تسلی کے لیے یہ آیت نازل فرمائی46؎ کہ اے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) آپ غم نہ کریں۔ اگر یہ کافر ایمان نہیں لاتے تو آپ غم نہ کریں دو وجہ سے کہ ہدایت کے دو ہی راستے ہیں یا تو میں ان کو اپنی طرف جذب کروں یا یہ خود محنت کریں ، حق کو تلاش کریں اور یہ دونوں سے محروم ہیں ، نہ تو میں نے ان کافروں کو اپنی طرف جذب کیا نہ یہ آپ کی طرف متوجہ ہیں اور آپ کی باتوں کو غور سے سُنتے بھی نہیں ۔ اس لیے ہمارے بننے کے دونوں راستوں سے یہ محروم ہیں ۔ یہ جو ہمارے نہیں بن رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ دو ہی راستے ہیں جن سے بندے ہمارے بنتے ہیں ؎دونوں جانب سے اشارے ہوچکے ہم تمہارے تم ہمارے ہو چکے اس کے دو ہی راستے تھے کہ یا تو میں ان کو جذب کرتا یا یہ میری تلاش و جستجو کرتے اور یہ دونوں ہی سے محروم ہیں۔ جذب کی دو نعمتیں علامہ نسفی رحمۃ اﷲعلیہ نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ جس کو اﷲ تعالیٰ جذب فرماتا ہے اس کو دونعمتیں عطا کرتا ہے: ۱) توفیق:نیکی کے اسباب اﷲ اس کے پاس کردیتا ہے تَوْجِیْہُ الْاَسْبَابِ نَحْوَ الْمَطْلُوْبِ الْخَیْرِ خیر کے اسباب اس کے سامنے آجاتے ہیں۔ ۲) وَتَسْدِیْدُ طَرِیْقِ الشَّرِّ وَتَسْھِیْلُ طَرِیْقِ الْخَیْرِ خیر کے راستے آسان اور گناہوں کے راستے اس کے لیے مشکل کر دیے جاتے ہیں بلکہ بند کر دیے جاتے ہیں۔ تو توفیق اور تسدیدیہ _____________________________________________ 46؎روح المعانی:23/13، الشورٰی(13)،دارالکتب العلمیۃ،بیروت