تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
مجذوب نے نادانی اور سادگیٔ طبع سے اﷲ تعالیٰ سے ایک بات کہی جو اعتراض نہیں تھا سادگیٔ طبع تھی، اس نے کہا کہ اﷲ میاں میں دس سال سے اس جنگل میں آپ کی عبادت کر رہا ہوں اور آپ نے دس سال تک مجھ کو چٹنی روٹی دی اور یہ ایک کل کا دیوانہ آیا ہے ؎یہ کل عاشق ہُوا میں ہوں ترا دیوانہ برسوں سے تو اس کل کے دیوانے کو آپ نے بریانی بھیجی ہے جس کی خوشبو سارے جنگل میں پھیل گئی۔ آسمان سے آواز آئی اے نادان! تو نے میری راہ میں ایک کھرپی جس سے گھاس چھیلی جاتی ہے اور ایک کھانچہ جس میں گھاس رکھی جاتی ہے قربان کیا ہے یعنی کل بارہ آنے تونے میری راہ میں قربان کیے ہیں اور میں نے دس سال تک تجھے چٹنی روٹی کھلائی ہے۔ اپنی قیمت دیکھ جو تو نے مجھے دی ہے اور دس سال تک جو تونے چٹنی روٹی کھائی ہے اس کی قیمت بھی لگالے۔میرا یہی ایک احسان تجھ پر بھاری رہے گا بس اے مجذوب! اس چٹنی روٹی کو غنیمت سمجھ ورنہ یہ بھی بند کر دوں گا۔ تیری جتنی قربانی تھی اس سے زیادہ میں نے تجھ پر مہربانی کی ہے، لیکن یہ آدمی جو کل آیا ہے یہ سلطانِ بلخ ہے۔ سلطنتِ بلخ کا بادشاہ ہے۔ اس نے میری محبت میں بادشاہت چھوڑی ہے، تخت و تاج چھوڑا ہے ، وزیروں کی سلامی چھوڑی ہے، مخمل کے گدے چھوڑے ہیں، وہ آج جنگل میں ریت اورکنکریوں پر سو رہا ہے تو جیسی جس کی قربانی ویسی میری مہربانی۔ اس کی قربانی بھی تو دیکھ،سلطنت فدا کی ہے مجھ پر۔ اسی لیے ہمارے شیخ فرماتے تھے اس کے جرے تو کس نہ بسائے۔ جو اپنے کو جلا کر خاک کرتا ہے یعنی دل کی بُری بُری خواہشات کو جلا کرخاک کرتا ہے ، گناہ کے تقاضوں پر عمل نہیں کرتا اور گناہ نہ کرنے کا غم اٹھا تا ہے اﷲ تعالیٰ بھی اس پراپنی رحمت کی بارش کردیتے ہیں۔ گناہ سے بچنا دلیل محبت ہے بُری بُری خواہشات کو جلانا یہی تو ایمان ہے ، یہیں پتا چلتا ہے کہ کون کتنا وفا دار ہے، شاعری سے عشق کا پتا نہیں چلتا،زبانی جمع خرچ سے وفا داری کا پتا نہیں چلتا۔ پتا چلتا ہے جب بُری خواہش پیدا ہو اور اس کو جلا کر خاک کردے اور اﷲ کی ناخوشی کے راستوں سے اپنے اندر حرام خوشی کو نہ درآمد کرے۔نفس ظالم اگر خوشیوں کا کوئی ذرہ بھی درآمد کرلے تو دو رکعت