تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
بخود ہیڈ آفس میں پہنچ جاتا ہے بس اسی طرح خواہشاتِ نفس آدمی کو دوزخ تک لے جاتی ہیں۔ نیک بندوں کی دو جنت ایسے ہی جو لوگ ا ﷲ تعالیٰ کو راضی رکھتے ہیں اور اپنی خوشیوں کو اﷲ پر قربان کرتے ہیں یعنی اپنی خوشیوں کو اپنے مالک کی مرضی پر فدا کرتے ہیں۔جس خوشی سے وہ خوش اس خوشی کو لیتے ہیں اور جس خوشی سے مالک ناراض اس خوشی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ غرض ہر وقت اﷲ تعالیٰ کو خوش رکھتے ہیں اور ہر گناہ کی لذت پر میرایہ شعر زبانِ قال سے یا زبانِ حال سے پڑھتے ہیں ؎ہم ایسی لذتوں کو قابل لعنت سمجھتے ہیں کہ جن سے رب مرا اے دوستو ناراض ہوتا ہے تو اﷲتعالیٰ ایسے لوگوں کو دو جنت دیتے ہیں جَنَّۃٌ فِی الدُّنْیَا بِالْحُضُوْرِ مَعَ الْمَوْلٰی ایک جنت تو دنیا ہی میں دیتے ہیں کہ اس کے قلب کو ہر وقت اپنی حضوری اور قرب کی لذت سے مست رکھتے ہیں۔وہ خالق لیلائے کائنات ہیں۔یہ لیلیٰ کیا ہےجس سے مجنوں پاگل ہوگیا، جو ساری دنیا کی لیلاؤں کا پیدا کرنے والا ہوگا خود اس کا کیا عالم ہوگا جو مرکزاورسر چشمہ حُسن و جمال ہے،جس کی ایک ذرہ بھیک سے کائنات کے چاند سورج میں نور ہے۔پس جس کےدل میں اﷲآتا ہےساری دُنیا کی لیلاؤں کا مزہ، جنت کی حوروں کا مزہ،دُنیا اور جنت کی ساری لذتوں کا وٹامن وہ دل میں پاجاتا ہے، اور اﷲ والے پاگل بھی نہیں ہوتے کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات ہروقت دل کو سہارا دیتی ہے اورمجنوں بے چارہ پاگل ہوگیا کیوں کہ جس پر وہ عاشق تھا وہ خود بےسہارا تھی، اپنی ذات کو نہیں سنبھال سکتی تھی مجنوں کو کیا سہارا دیتی ؎قیس بے چارہ رموزِ عشق سے تھا بے خبر ورنہ ان کی راہ میں ناقہ نہیں محمل نہیں مجنون رموزِعشق سے نا واقف تھا۔اونٹنی پر جارہا تھا لیلیٰ سے ملنے کے لیے اور اﷲ والے اونٹنی کے محتاج نہیں،اپنے پاؤں کے بھی محتاج نہیں وہ تو ہر وقت دل کےپروں سےاﷲ کی طرف اڑتے رہتے ہیں ؎