تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
دو نعمتیں اﷲتعالیٰ صاحب ِجذب کو عطا فرماتے ہیں کہ نیک کام کرنے کو اس کا دل چاہنے لگتا ہے اور شر کے راستوں کو ،گناہوں کے راستوں کو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے بند کر دیتا ہے۔حضرت مفتی اعظم پاکستان رحمۃ اللہ علیہ نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ اس آیت کی تفسیر ایک دوسری آیت بھی کرتی ہے: اِنَّاۤ اَخۡلَصۡنٰہُمۡ بِخَالِصَۃٍ ذِکۡرَی الدَّارِ 47؎یعنی ہم نے ان کو آخرت کے کاموں کے لیے خالص کرلیا۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اور صدیقین کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کو آخرت کے کاموں کے لیے خالص فرمالیا۔ جذب کی ایک خاص علامت نبیوں کے صدقے میں ، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے صدقے میں امت کے افراد کو بھی اﷲ تعالیٰ اپنے دین کے لیے خالص فرماتا ہے، اور جس کو دین کے لیے خالص کرتا ہے پھر دُنیا کے کسی کام میں اس کا جی نہیں لگتا۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲعلیہ اس کی شرح فرماتے ہیں ؎تا بدانی ہر کہ را یزداں بخواند یقین کرلو کہ جس کو خُدا اپنا بنانا چاہتا ہے ؎از ہمہ کار جہاں بے کار ماند اس کو ساری دُنیا کے کاموں سے بے کار کردیتا ہے ، کہیں اس کا دل نہیں لگتا ۔بس اس کی تمنا یہ ہوتی ہے ؎تمنّا ہے کہ اب کوئی جگہ ایسی کہیں ہوتی اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دل نشیں ہوتی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بال بچوں کو بھول جاتا ہے اور روزی نہیں کماتا ۔نہیں ،ایسے _____________________________________________ 47؎صٓ:46