فِیْہَا أَحَدٌ مِّنْ أَہْلِہٖ إِلاَّ أَنْ تَخْتَارَ ذٰلِکَ ۔۔۔۔ وَلَوْ أَسْکَنَہَا فِيْ بَیْتٍ مِّنَ الدَّارِ مُفْرَدٍ وَلَہٗ غَلْقٌ کَفَاہَا ؛ لأنَّ الْمَقْصُوْدَ قَدْ حَصَلَ ‘‘ ۔ (۲/۴۴۱)
مگر افسوس! آج ہمارامعاشرہ بہو کے اِس حق کو تسلیم کرنے پر راضی ہی نہیں، ساس اپنی بہو کو بیٹی نہیں- بلکہ نوکرانی سمجھتی ہے، باندیوں کی طرح اس سے خدمت لیتی ہے، حتی کہ آج کل اپنے بیٹوں کی شادیوں سے پہلے ہی مائیں اپنے گھروں میں اِس طرح کی باتیں کرتی ہیں کہ:
’’ کیا کروں ! گھر کا کام کاج بہت بڑھ گیا ، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، بیٹیوں کی شادیاں ہوگئیں، گھر میں کام کرنے والا کوئی نہیں، سوچتی ہوں بڑے لڑکے کی شادی کردوں ، تاکہ کام کاج کا مسئلہ حل ہوجائے۔‘‘
اب شادی کے بعد جب بہو گھر آتی ہے، تو پلان کے مطابق، گھر کے تمام بزرگوں، خوردوں(چھوٹوں) اور نندوں وغیرہ کی خدمت اور حکم کی بجا آوری اس کے ذمہ فرض ہوجاتی ہے، اگر کسی کی خدمت میں کوئی کوتاہی ہوتی، یا حکم کی بجا آوُری میں محض تاخیر ہوتی ہے ، تو بے چاری بہو کی جان پر بَن آتی ہے، اور اسے ایسی ذہنی اور جسمانی تکلیفیں دی جاتی ہیں کہ اگر یہی تکلیفیں خود ساس کی بیٹی ، بھائیوں کی بہن کو اُس کے سسرال میں دی جاتیں، توآسمان سر پر اُٹھالیا جاتا، سسرال والوں کو ظالم، جاہل او رشریعتِ اسلامیہ کا دشمن قرار دیا جاتا، لیکن یہی کام خود کررہے ہیں ، تو ظلم کے باوجود منصف، جہالت کے باوجود دانش مند، اور حکمِ شرعی کی خلاف ورزی کے باوجود بھی حامی ٔ شریعت بنے ہوئے ہیں۔