مقدمہ (۱)
(۱) والد(زاہد): السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
مفتی صاحب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کہیے جناب مزاج بخیر ہیں؟ کیسے آنا ہوا؟
زاہد: عالی جناب مفتی صاحب! یہ میرا لڑکا (خالد)ہے، لیکن مجھے اس سے بڑی شکایات ہیں، میں نے اسے چھوٹے سے بڑا کیا، انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، اس کی تعلیم وتربیت کیلئے رات دن محنت ومشقت اٹھائی، اور اسے جوہر تعلیم سے آراستہ کرکے، آسمان پر اڑنے کے خواب دکھائے، اور آج جب یہ اپنی اعلیٰ تعلیم کی بنیاد پر آئی ، ایس آفیسر (I.S.Officer)بن گیا، تو ہمارے ساتھ اس کے طور طریق بالکل بدل چکے ہیں، نہ اسے ہمارے ادب واحترام کا خیال ہے، اور نہ ہی حقوق والدین کا پاس ولحاظ، کبھی سیدھے منہ نہ بات کرتا ہے، اور نہ ہی ہمارے حقوق کو ادا کرتا ہے، بلکہ اپنے دوست واحباب کے سامنے بارہا اس فکر کا اظہار کرچکا کہ ابھی تو ان دونوں بوڑھا بوڑھی کو مکان میں رہنے دے رہا ہوں ، لیکن کل جب میری شادی ہوجائے گی، تو ان دونوں کو اولڈ ہاؤس (Old House) میں داخل کردوں گا، لیکن ان باتوں کے باوجود میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا یہ لختِ جگر، نورِ نظر، کل قیامت کے دن جہنم کا ایندھن نہ بنے، اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، کہ آپ اسے سمجھائیے، کہ ماں باپ اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہیں، اور آدمی ان کی خدمت کرکے، کس طرح اللہ کی رضا اور اس کی جنت کو