مقدمہ (۵)
(۵) (خسر-عابد-اپنی بہو کا شکوہ لے کر اپنے بیٹے-عاقب-کے ہمراہ دارالافتاء میں حاضرہوتا ہے): السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
مفتی صاحب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فرمائیے جناب! خیریت تو ہیں؟!
خسر (عابد): جناب مفتی صاحب!
یہ میرا بیٹا ہے، مجھے اس کی بیوی سے بڑی شکایت ہے، کہ جب سے اس کے قدم میرے گھر میں پڑے، تب سے گھر کا پورا نظام تباہ وبرباد ہوگیا ہے، کیوں کہ میری بہو ، میرا اور اپنی ساس کا کہنا نہیں مانتی، نہ ہم دونوں کی خدمت کرتی ہے، نہ ہمیں وقت پر کھانا پینا مہیا کرتی ہے، نہ ہمارے بستر اٹھاتی ہے، نہ ہمارے کمرے میں جھاڑو لگاتی ہے، دکھ درد میں راحت رسانی تو بہت دور کی بات ہے ، بلکہ ایسی باتیں سناتی ہے ، کہ اس تکلیف میں اضافہ ہوجائے، مثلاً- یہ کہتی ہے: کیا ہوا بڑھاپے میں اس طرح کی تکلیفیں ہوا کرتی ہیں، اسے برداشت کرو، صبر سے کام لو، صبر کا بڑا اَجر ہے، دوسرے بوڑھے لوگوں کو ذرا دیکھو کہ وہ کیسی کیسی مصیبتوں میں مبتلا ہیں، لیکن کبھی ان کی زبان سے حرف شکایت نہیں نکلتا، اور وہ خدائی فیصلے پر راضی برضا رہتے ہیں، اور تم ہو کہ ذرا تکلیف ہوئی تو زمین وآسمان سر پر اٹھا لیتے ہو، اور اپنے بیٹے ،بہو، پوتا، پوتی کے آرام کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے، اور میرا یہ بیٹا اپنی بیوی کو کچھ نہیں بولتا، بلکہ اس کی طرف داری کرتا ہے، میں کہتا ہوں: ایسی