عدالتی ہدایات
محترم حاضرین! مقدمات اور اُن کے فیصلوں کو سننے کے بعد یقینا آپ سمجھ چکے ہوں گے، کہ اس طرح کے جھگڑے کیوں پیش آتے ہیں؟
مقدمہ نمبر ایک؛ اس لیے پیش آیا کہ مدعیٰ علیہ نے محض شکوک وشبہات اور بہتان کی بنیاد پر مدعی کے خلاف بیان دیا، جب کہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جب تک کہ کسی امر کی پوری حقیقت اور اس کی سچائیت سے واقفیت نہ ہو، کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کہنا چاہیے، خاص طور پر جب اُس امر وخبر سے کسی کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہو،اس لیے کہ دنیا میں بہت سارے جھگڑے اور واقعات غلط بیانی ،غلط اطلاع اور غلط چغلی کھانے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں ،اور جس قوم و فرد کے متعلق غلط بیانی وغلط اطلاع سے کام لیا جاتا ہے، حقیقتِ حال کے واضح ہوجانے تک وہ بڑے نقصانوں اور تکلیفوں سے دو چار ہوجاتا ہے، پھر حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد، اپنی غلط بیانی پر شرمندگی وپشیمانی ہوتی ہے، لیکن اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اوراس شرمندگی وپشیمانی پر یہ مثل صادق آتی ہے:
’’چوں تریاق از عراق آوُردہ شود مار گَزیدہ مُردہ شود‘‘
(عراق سے تریاق آنے تک سانپ کاٹے شخص کی جان چلی جاتی ہے)
(مستفاد از توضیح القرآن وتفسیر محمود)
اسی لیے اللہ رب العزت کا فرمان ہے: {إنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْا}۔