ستاؤں گے، کل کو تمہاری اولاد تمہیں ستائے گی، جیسا کہ آئے دن اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔
آج مغربی معاشرہ نے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناکر، اولاد اور ماں باپ کے درمیان فاصلہ اور جنریشن پیدا کردیا ہے ، اسی لیے اکبر مرحوم نے بہت پہلے اس پر احتجاج کرتے ہوئے یہ کہا تھا: ؎
ہم ایسی کل کتابیں لائق ضبطی سمجھتے ہیں!
جسے پڑھ پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں!
خالد: جزاک اللہ مفتی صاحب ! آپ نے مجھ نادان کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچالیا ، آج سے میں توبہ کرتا ہوں کہ اب کبھی اپنے والدین کو نہیں ستاؤں گا۔
مقدمہ (۲)
(۲) لڑکا(خالق): السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
مفتی صاحب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کہیے جناب! خیریت سے ہیں؟ آج دونوں باپ بیٹے کہاں نکل آئے ؟
خالق: جناب مفتی صاحب! یہ میرے والد صاحب ہیں، میں جانتا ہوں کہ یہ میرے اس دنیا میں آنے کا سبب ہیں، اور باپ جنت کا دروازہ ہے، مگر مجھے انہیں ابا کہنے میں بھی شرم محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، جب سے مجھ میں شعور بیدار ہوا، تب سے آج تک یہ مجھے ہمیشہ کوستے رہے، اور میرے وجود کو بجائے رحمت کے زحمت سمجھتے رہے، اور باربار یہ طعنہ دیتے رہے،