عابد: شکریہ مفتی صاحب!
…میں اس کے بعد کبھی اپنی بہو کے متعلق حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاؤں گا،اور اس کی خدمت کو احسان تصور کروں گا، نہ کہ اپنا حق۔
مقدمہ (۶)
(۶) (بہنوں کا وکیل -عاطف-بھائی-عاکف- کو لے کر دارالافتاء میں حاضر ہوتا ہے) : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
مفتی صاحب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مزاجِ عالی بخیر تو ہیں؟!
وکیل (عاطف): جناب مفتی صاحب !
میں ان تین بھائیوں کی دو بہنوں کا وکیل ہوں، بہنوں کی شکایت یہ ہے، کہ ان کے والد محترم کا انتقال ہوا، اوروہ اپنے پیچھے بڑی لمبی چوڑی جائیداد چھوڑگئے ہیں، ان بھائیوں نے پوری جائیداد آپس میں تقسیم کرلی، اور بہنوں کو ان کا حقِ وراثت نہیں دیا، ان بھائیوں کا کہنا یہ ہے کہ بہنیں چوں کہ دوسروں کے گھر چلی گئیں، اس لیے باپ کے گھر ان کا کچھ بھی نہیں رہا، ہاں! عید ،بارات کے موقع پر جب وہ میکے آتی ہیں ،تو ہم انہیں کپڑے وغیرہ بنادیتے ہیں، جو ہماری طرف سے ان پر احسان ہے، رہی باپ کی جائیداد! تو اس میں ان کا کوئی حق نہیں ہے ،