’’(مسلمانو! )جن (جھوٹے معبودوں) کو یہ لوگ اللہ کے بجائے پکارتے ہیں، تم اُن کو بُرا نہ کہو، جس کے نتیجے میں یہ لوگ جہالت کے عالم میں حد سے آگے بڑھ کر اللہ کو بُرا کہنے لگیں۔‘‘ (سورۂ انعام :۱۰۸)
٭اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے، کہ وہ کافروں کے سامنے اُن کے معبودوں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال نہ کیا کریں،اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ کافر لوگ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرسکتے ہیں، اگر انہوں نے ایسا کیا، تو اس کا سبب تم بنوگے، اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنا حرام ہے، اسی طرح اس کا سبب بننا بھی ناجائز ہے۔
اِس آیت سے فقہائے کرام نے یہ اصول نکالا ہے، کہ اگر کوئی کام بذاتِ خود تو جائز یامستحب ہو، لیکن اندیشہ ہو کہ اس کے نتیجے میں کوئی دوسرا شخص گناہ کا ارتِکاب کرے گا، تو ایسی صورت میں وہ جائز یا مستحب کام چھوڑدینا چاہیے، تاہم اِس اصول کے تحت کوئی ایسا کام چھوڑنا جائز نہیں ہے، جو فرض یا واجب ہو۔
(توضیح القرآن:ص/۳۰۲)
مقدمہ نمبر تین؛ اس لیے پیش آیا، کہ ہم مسلمانوں نے اپنے دین کی ایک انتہائی زرّین تعلیم:
’’ تَعَاشَرُوْا کَالإخْوَانِ وَتَعَامَلُوْا کَالأجَانِبِ ‘‘ ۔
’’آپس میں رہو بھائیوں کی طرح، لیکن لین دین کے معاملات اجنبیوں کی طرح کرو۔‘‘…کو نظر انداز کردیا۔