اوپر)لیتے ہیں ۔‘‘ (سورۃ الأحزاب :۵۸)
اسی طرح سے وکیلِ دفا ع کا یہ کہنا …کہ احادیث میں ان چیزوں کے متعلق کوئی ممانعت نہیں، بالکل غلط ہے،کیوںکہ یہ چیزیں اِسراف مال، ہلاکتِ نفس او رایذائے مسلم کا ذریعہ وسبب ہیں،جس کی احادیث میں ممانعت وارد ہوئی ہے۔بطورِ نمونہ چند احادیث پیشِ خدمت ہیں:
(۱) اِسرافِ مال : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ إِضَاْعَۃَ الْمَالِ ‘‘ ۔ ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اضاعت مال کو حرام کیا ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری:۱/۳۲۴)
(۲) ہلاکتِ نفس: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ مَنْ أَکَلَ الطِّیْنَ فَکَأَنَّمَا أَعَانَ عَلٰی قَتْلِ نَفْسِہٖ ‘‘ ۔ ’’جس نے مٹی کھائی گویا اس نے خود کشی پرمدد کی ۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی:۱۰/۲۰)
قَالَ فِيْ الْجَوْہَرِ : ’’ بَلْ ہُوَ دَالٌّ عَلَی التَّحْرِیْمِ ؛ لِأَنَّ الإِعَانَۃَ عَلَی قَتْلِ النَّفْسِ مُحَرَّمَۃٌ ، فَکَذَا ہٰذَا ‘‘ ۔’’بلکہ آیت کریمہ مٹی کھانے کی حرمت پردال ہے ،کیوں کہ قتلِ نفس پر اِعانت کرنا بھی حرام ہے ،ایسے ہی مٹی کا حکم ہے۔‘‘
(۳)ایذائے مسلم:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’ مَنْ أَکَلَ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ الْمُنْتِنَۃِ فَلاَ یَقْرُبَنَّ مَسْجِدَنَا ، فَإِنَّ الْمَلاَئِکَۃَ تَتَأَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْہُ الإِنْسُ ‘‘ ۔ متفق علیہ ۔ ’’ جو شخص اس بدبو دار درخت سے کھائے، وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، اس لیے کہ ملائکہ کو ان