جج: وکیلِ استِغاثہ( سرکاوی وکیل) سے مخاطب ہوکر:
آپ نے وکیلِ دفاع کی دلائل سنیں، کیا آپ کو اس سلسلے میں کچھ نقدوجرح کرنی ہے؟
وکیلِ استغاثہ: جی ہاں!
اولاً تو مجھے اِس بات پربڑا ا فسوس ہے کہ محترم وکیلِ دفاع، بجائے اِس کے کہ اپنے مؤکل کی حرکتوں پر ندامت کا اظہارکرتے، اور اس کی طرف سے عدالتِ عالیہ سے معافی ودرگزر کے طلب گار ہوتے، اُس کی حرکتوں کوجائز ومباح قرار دینے کے لیے، مختلف حیلے اور بہانے تلاش کیے ،اور دلائلِ شرعیہ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ،بے جا جسارت وجرأت کی ہے،جو بذاتِ خود ایک جرم ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا:
’’بریں عقل ودانست بباید گریست‘‘
اسی طرح ایک مقُولے کا مفہوم ہے:
’’ حیلۂ گناہ بدتر از گناہ است‘‘
محترم جج صاحب !
وکیلِ دفاع نے اپنی دلائل پیش کر کے، نہ صرف اپنے مؤکل کا ناحق دفاع کیا، بلکہ عدالتِ عالیہ کو بھی گمراہ کرنا چاہا۔
وکیلِ موصو ف کا یہ دعویٰ کہ ان چیزوں کی حرمت پر کوئی آیتِ قرآنی موجود نہیں، بے بنیاد ہے ، کیوں کہ بیڑی، سگریٹ، تمباکو وغیرہ کا استعمال کرنااکل