اب رہی آپ کی پریشانی ، کہ آپ کو نکاح کے بعد سکون حاصل نہ ہوا ، بلکہ موجودہ سکون بھی تباہ وبرباد ہوگیا، تو اس کی وجہ آپ کا نکاح کرنا نہیں ، بلکہ بیوی کے ایک اہم حق کی پامالی ہے، اور وہ حق ہے، بیوی کو علیحدہ مکان دینا؛ کیوں کہ شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے علیحدہ مکان کا مطالبہ کرسکتی ہے، اور شوہر پر اُس کے اِس مطالبے کو پورا کرنا لازم ہے۔جیسا کہ فقہ حنفی کی چوٹی کی کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے: ’’ لَوْ أَرَادَ أَنْ یُّسْکِنَہَا مَعَ أَحْمَائِہَا کَأُمِّہٖ وَأُخْتِہٖ فَأَبَتْ فَعَلَیْہِ أَنْ یُّسْکِنَہَا فِيْ مَنْزِلٍ مُنْفَرِدٍ ‘‘ ۔ (شامی:۲/۷۲۰، ہدایہ:۲/۴۴۱)
اگر شوہر اپنی بیوی کو اس کے دیور، اپنے اقرباء ، مثلاً ماں، بہن کے ساتھ رکھنا چاہتا ہے، اور بیوی ساتھ رہنے سے انکار کرتی ہے،یا محض قرائن سے معلوم ہوجائے کہ وہ علیحدہ مکان میں رہنا چاہتی ہے ، مگر زبان سے درخواست نہیں کرتی، تب بھی شوہر پر لازم ہے کہ اس کو علیحدہ مکان میں رکھے۔
یہ علیحدہ مکان کس درجہ اور نوعیت کا ہونا چاہیے؟ فقہائے کرام نے اس کی بھی وضاحت فرمادی ، کہ اگر پورا گھرنہ دے سکے، تو بڑے گھر میں ایک ایسا کمرہ دے، جو عورت کی ضرورت کے لیے کافی ہو، اوروہ اس میں اپنا مال اور سامان مقفل رکھ سکے، آزادی کے ساتھ اپنے میاں کے ساتھ تنہائی میں اُٹھ بیٹھ سکے، بات چیت کرسکے، اس واجب کی ادائیگی کے لیے یہ کافی ہوگا، اور چولہا تو ضرور علیحدہ ہونا چاہیے، کیوں کہ زیادہ تر آگ اِسی چولہے سے بھڑکتی ہے۔
صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں: ’’ عَلَی الزَّوْجِ أَنْ یُّسْکِنَہَا فِيْ دَارٍ مُفْرَدَۃٍ لَیْسَ