{وَلَکُمْ فِيْ الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰآ أُوْلِيْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} ۔ (سورۃ البقرۃ :۱۷۸، ۱۷۹)
اور مقاصدِ شریعت کی دفعہ؍ ۲ ’’حفاظتِ نفس‘‘ کے تحت، موت کی سزا سناتی ہے۔
OoOoOoOoOoO
مقدمہ نمبر {۳}
پیش کار( آواز لگاتا ہے):
مقدمہ نمبر ؍۳ کے فریقین کمرۂ عدالت میں حاضر ہوں…!!
جـج(وکیل دفاع سے مخاطب ہوکر):
آپ کے مؤکل کے خلاف چوری کا مقدمہ درج ہے، کیا آپ اپنے مؤکل کی طرف سے کوئی صفائی پیش کرنا چاہیں گے؟
وکیل دفاع: ہاں جج محترم! میرا مؤکل مالی پریشانیوں میں گھرا ہوا تھا، اپنی بیوی بچوںکے اخراجات اس کے ذمہ بڑھ گئے تھے، اور آج کل مہنگائی بھی تو آسمان سے باتیں کررہی ہے، کیا آلو ، ٹماٹر، بیگن، … اور کیا دال ، بھات، اور ساگ پات،… غرض تمام اشیائے خورد ونوش تقریباً ایک دام میں فروخت ہورہی ہیں۔ اور میرے مؤکل نے یہ پہلی بار چوری کی، وہ بھی مجبوری کی حالت میں، جب کہ قانون مجبوری میں ممنوع کام کو بھی جائز کہتا ہے، لہٰذا میں آں جناب سے درخواست کرتا ہوں کہ اُس پر حد شرعی قائم نہ کی جائے۔
وکیل استغاثہ: محترم جج صاحب! وکیلِ دفاع، عدالت کو گمراہ کرنے