کلماتِ تحسین
(حضرت مولانا حذیفہ وستانوی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ؛ ناظم تعلیمات ومعتمد جامعہ اکل کوا)
زبان وقلم انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے، اور یہ دو نعمتیں جب اللہ تعالیٰ کسی عالم، فاضل ومفتی کوعطا فرمادے، اور خلوص سے بھی نواز دے، تو نورٌ علیٰ نور، اور سونے پر سہاگہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے، آپ قارئین کی خدمت میں اس وقت جو تحریری کاوش، تحقیق اور علمی لبادہ سے مزین کتاب ہے، وہ میرے استاذ محترم رفیق تدریس حضرت مولانا مفتی محمد جعفر صاحب مدظلہ العالی کی ہے، اللہ رب العزت نے واقعۃً مفتی صاحب کو علمی ذوق سے نوازا ہے، احقر بچپن ہی سے آپ سے واقف ہی نہیں بلکہ والہانہ تعلق رکھتا ہے، ابتدائی نحو وصرف کی متعدد کتابیں، اس کے بعد درجاتِ عالیہ میں فقہ اور اصولِ فقہ کی بیشتر کتابیں مفتی صاحب سے کسبِ فیض کرچکا ہے، آپ کا درس بہت ہی مؤثر ہوتا تھا، سمجھانے کا انداز بڑا نرالا اور طبیعت میں ظرافت اس پر مستزاد۔ آج بھی آپ کا درس طلبہ میں بہت مقبول ہے، اللہ حضرت کو اجرِ عظیم عطا فرمائے، کہ آپ جیسے اساتذہ کی محنت، توجہ ، دعاؤں اور عنایتوں سے ٹوٹی پھوٹی کچھ تھوڑی سی صلاحیت بنی، اور کچھ لکھنے پڑھنے کا ذوق بنا۔میرے استاذ ہونے کے ناطے میں نے بہت معذرت کی ، مگر مفتی صاحب نے اصرار کیا، تو حکم کی تعمیل میں چند سطریں لکھنے پر مجبور ہوں۔
مفتی صاحب سے بندے کو شاگردی کے ساتھ ساتھ بے تکلفانہ تعلقات بھی ہیں، تو میں ہمیشہ آپ سے کہتا رہتا ہوں کہ ’’محقق ومدلل‘‘ آپ کا نشانِ امتیاز اور سیمبول ہوگیا، اس لیے کہ ماشاء اللہ آپ کی قلمی کاوشیں تحقیق کے بلند معیار کی حامل ہوتی ہیں، آپ نے جامعہ کے دار الافتاء کی ذمہ داری شروع سے ہی سنبھالی اور اس کا حق ادا کردیا، ’’مسائل مہمہ‘‘ نے علمی حلقے میں خاص طور پر افتاء اور فقہ کے شائقین کے لیے گویا عمدہ مواد فراہم کردیا، اور قلیل مدت میں اس کے متعدد ایڈیشن طبع ہوچکے ہیں، مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، ایک صاحب فارسی میں ترجمہ کر رہے ہیں، جامعہ کے ایک آسامی طالبِ علم نے فون پر اطلاع دی کہ میں نے اس کا