انصاف کا یہی دوہرا معیار گھروں میں اختلاف وانتشار، اور جھگڑے فساد کی آگ بھڑکائے ہوئے ہے، جس کی وجہ سے نکاح کے بعد سکون حاصل نہیں ہوتا ، اِدھر شوہر ، جس کی وجہ سے یہ پرائے کی لڑکی بہو بنا کر گھر میں لائی گئی، اُس کی حالت بھی اپنی ماں سے مختلف نہیں ہوتی، وہ اِسی کو بڑی سعادت مندی سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی، اس کے ماں کی محکومہ اور تابعہ بن کر رہے، اور اگر وہ اس کے ماں کے حکم کی بجا آوُری نہیں کرتی ، یا خدمت میں کوئی کوتاہی کرتی ہے، تووہ اس پر بڑے مظالم ڈھاتا ہے، اسے طلاق کی دھمکی دیتا ہے، اور ہمہ وقت اسے ذہنی دبائو اور ڈپریشن میں رکھتا ہے، جب کہ یہ بات کان کھول کر سن لینی چاہیے کہ بیوی پر اپنے ساس وخسر ، اور دیور ونند کی خدمت فرض نہیں ہے، اگر وہ کرتی ہے، تو یہ اس کا احسان ہے، اور اگر نہیں کرتی، تو اس پر اس کا مؤاخذہ و گرفت شرعاً جائز نہیں ، کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے: ’’ تَرْکُ الإحْسَانِ لا یَکُوْنُ إِسَائَ ۃً ‘‘-کہ ترکِ احسان سے آدمی گنہگار نہیں ہوتا۔ہاں ! البتہ اگر بہو کے علاوہ کوئی دوسری قریبی عورت خدمت کرنے والی نہ ہو، نیز ماں مجبور ہو، خود سے وہ کام انجام دینے کے لائق نہ ہو ، تو ایسی مجبوری کی صورت میں بہو پر ساس کی خدمت اخلاقی طور پر واجب ہوگی۔ (مختصراً-ازتجویز اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا :۲۰۱۱ء)
لہٰذا شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ جو رویہ ہوتا ہے، وہ بھی سراسر ظلم ہے، ہاں! لڑکوں پر اپنے ماں باپ کی خدمت واجب ہے، اگر وہ سعادت مند ہیں ، تو خود خدمت کریں، یا خدمت کے لیے نوکرانیاں رکھیں، مگر بیوی کو پورے گھر کی