میں مجرم نمبر؍ ۳ کو ، خدائی فرمان: {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوٓا أَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِّمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ} ۔ (سورۃ المائدۃ :۳۸)
اور مقاصد شریعت کی دفعہ؍ ۴ ’’ حفاظتِ مال‘‘ کے تحت ، اُس کے داہنے ہاتھ کے کاٹ دیئے جانے کا حکم دیتی ہے۔(۲)
مقدمہ نمبر {۴}
پیش کار( آواز لگاتا ہے):
مقدمہ نمبر؍۴ کے فریقین کمرۂ عدالت میں حاضر ہوں…!!
جـج(وکیل دفاع سے مخاطب ہوکر):
آپ کے مؤکل کے خلاف لوٹ مار کا مقدمہ درج ہے، کیا آپ اپنے مؤکل کی طرف سے کوئی صفائی پیش کرنا چاہیں گے؟
وکیل دفاع: محترم جج صاحب! میرے مؤکل کو اپنے جرم کا اعتراف ہے، مگر ہم اور آپ اِس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں،کہ ہر انسان کی کچھ ضرورتیں ہوا کرتی ہیں، مثلاً : بیوی بچوں کا خرچ، موبائل بیلنس، بیڑی، سگریٹ ، گٹکھا ، تمباکووغیرہ۔ جب وہ اپنی یہ ضرورتیں پوری نہیں کرپاتا، تو مجبوراً اُسے ناجائز طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ میرے مؤکل نے اپنے جرم کا ارتکاب چوں کہ مجبوری کی حالت میں ہی کیا ہے۔ اس لیے میں عدالتِ عالیہ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے مؤکل کو باعزت بری کردیا جائے، نیز اس کی اِن ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کوئی انتظام بھی فرمادیں!