مقدمہ نمبر {۵}
پیش کار( آواز لگاتا ہے):
مقدمہ نمبر؍۵ کے فریقین کمرۂ عدالت میں حاضر ہوں…!!
جـج(وکیلِ دفاع سے مخاطب ہوکر):
آپ کے مؤکل کے خلاف شراب نوشی، اور پڑوسی کو دِق کرنے کا مقدمہ درج ہے، کیا آپ اپنے مؤکل کی طرف سے کوئی صفائی پیش کرنا چاہیں گے؟
وکیل دفاع: محترم جج صاحب! میرے مؤکل کو شراب نوشی کا اعتراف ہے، لیکن ذرا آپ یہ تو بتائیے کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو، اور شراب کا استعمال اس کے لیے وقتی یا مستقل طور پر شفا ہو، تو کیا مریض کے لیے شراب کا استعمال لازم نہیں؟ کیوں کہ اگر وہ شراب نہیں پیتا اور مرجاتا ہے، تو گویا اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا، اور یہ بات فرمانِ باری تعالیٰ: {وَلا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ} کے تحت گناہ ہے۔لہٰذا میرے مؤکل کا شراب پینا جرم کے دائرے سے خارج ہے۔
رہی بات پڑوسی کو دِق کرنے کی! تو وہ نشے کی حالت میں تھا، نشے کی حالت میں انسان کی عقل زائل ہوجاتی ہے، اور جس انسان کی عقل زائل ہو، وہ مجنون کہلاتا ہے، اور مجنون مرفوع القلم ہوتا ہے، جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاثٍ : عَنِ الْمَجْنُوْنِ الْمَغْلُوْبِ عَلٰی عَقْلِہٖ ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتّٰی یَحْتَلِمَ ‘‘ ۔ (مستدرک حاکم)