کرنے سے بات بننے والی نہیں ہے۔
اور بکر ، آپ تو اس کا مشاہدہ کرہی رہے ہیں کہ ایک طرف مولوی لوگ ہیں جو کنویں کے مینڈک کی طرح ہیں کہ صرف نورانی قاعدہ اور نحو وصرف لے کر بیٹھ گئے اور بس، اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مدرسہ سے فراغت کے بعد صرف دوتین ہزار تنخواہ پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے ، مجھے تو تم مولویوں کی حالت پر ترس آتا ہے ، کہ تمہارے بچے اتنے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی شخص تمہارے گھرآوے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچوں کے گھر (اقامتی درسگاہ )میں آیاہے ، اور جب تمہارے بچے گھر سے نکلتے ہیں تو ایسا لگتاہے گویا اسکول کی چھٹی ہوئی ہے، اور تنخواہ دیکھو تو صرف چند ہزار روپئے ۔اتنی کم تنخواہ پر تم مولوی لوگ کیسے گزارہ کرتے ہو؟
اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اگر ہمیں اس دنیا میں دیگر قوموں کے شانہ بشانہ ترقی کی منزلیں طے کرنی ہیں ، اور ایک زندہ قوم کی حیثیت سے عزت وشرافت کی زندگی گزارنی ہے ، تو اس قوم کو دنیوی علوم کے میدان میں آگے آنا ہوگا ، سائنس ، طب ٹیکنالوجی اور دیگر علومِ عصریہ میں مہارت پیدا کرنا ہوگی ،تاکہ قوم میںاچھے سے اچھے سے ڈاکٹر انجینئر، آفیسرس، سائنٹسٹ اور جج پیدا ہوں، اور قوم دیگر اقوام کی طرح خوشحالی اور عیش وعشرت کی زندگی بسر کرسکے ، اور اس قو م کے بارے میں مثال دی جاوے:
’’مسلم قوم کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں!‘‘
ورنہ ذلت ورسوائی ، جہالت وپس ماندگی ہی ہمارا مقدر ہوگی ، اور ہمیں اپنے کیے پر آنسو