تقریظ
(حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم، رئیس جامعہ اکل کوا)
حامدًا ومصلیًا ومسلمًا ! مدارسِ دینیہ کے سالانہ جلسے ایک اصلاحی پروگرام کے تحت منعقد کیے جاتے ہیں، او ر اس میں حاضرین کے سامنے مدارس کی کارکردگی پیش کرنا بھی ایک مقصد ہوتا ہے، الحمد للہ! ہندوستان کے مدارس اور اُن کے کارہائے نمایاں سے سبھی لوگ واقف ہیں، مدارس میں ایک ادارہ ، ایک مدرسہ، ایک جامعہ ؛ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا بھی ہے، جس کی بنیاد سن ۱۴۰۰ھ میں ایک چھوٹی شکل میں رکھی گئی تھی، اور عام مدارس کے جلسوں کی طرح اس کا بھی سالانہ جلسہ ہوتا آیا ہے، جامعہ میں شعبۂ عالمیت کے بعد دار الافتاء کا قیام سن ۱۴۲۸ھ میں عمل میں آیا، سالانہ جلسے میں جہاں اور پروگرام ہوتے ہیں، وہیں میرے دل میں یہ بات آئی کہ عوام کے سامنے ایسے مکالمے اور محاکمے پیش کیے جائیں، جو حالاتِ حاضرہ پر منطبق ہوتے ہوں، اور سامعین کو ایک علمی، فکری اور اصلاحی مواد بھی فراہم کرتے ہیں، ایسے مکالموں کے لیے میں نے دار الافتاء کے مسئول وذمہ دار ، عزیزم مفتی محمد جعفر صاحب سے درخواست کی کہ آپ دارالافتاء کے طلبہ کو ایسے مکالمے دیں، جس میں وہ عوام کو حالاتِ حاضرہ پر دینی معلومات پیش کریں، تاکہ آنے والا طبقہ سالانہ جلسے سے ایک مضبوط ومفید اور اصلاحی وفکری پیغام لے کر جائے، الحمد للہ! مفتی صاحب نے دار الافتاء کے پہلے سال سے ہی یہ سلسلہ آج تک جاری رکھا، اور عوام وخواص سبھی نے ان مکالمات ومحاکمات کو نہ صرف داد دی، بلکہ اُن کی بہت زیادہ تحسین وپذیرائی بھی کی۔آج الحمد للہ! یہ کتابی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں ہے، یہ جہاں مکالمے ہیں وہیں ایک دینی، علمی، فقہی،فکری اور اصلاحی دستاویز بھی ہیں، مدارس کے لیے خصوصاً ،اور سبھی کے لیے عموماً ایک علمی سرمایہ ہے۔ دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ان کی اِس کاوش کو قبول فرمائے، اور عوام وخواص سب کے لیے اس کو نافع بنائے۔ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد!
۲۸؍۲؍۱۴۳۸ھ