تمہید
ترجمان : آج جس معاشرے وسماج میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، وہ مختلف، سنگین، خطرناک بیماریوں کا شکار ہوچکا ہے،ظلم وبربریت، سود خوری، رشوت ستانی، قتل، ڈاکہ زنی، لوٹ کھسوٹ، شراب نوشی، اِغوا، عصمت دری اور فحاشی وعریانی نے، ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، حکومتیں ان سے نجات پانے کے لیے قانون سازی بھی کر رہی ہیں، مگر خاطر خواہ اس کے نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں، جس کی دو اہم وجہیں ہوسکتی ہیں:
(۱) انسانی دلوں سے خوفِ خدا، اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کا نکل جانا۔
(۲) عدالتوں پر ، مال وزر ، اثر ورُسوخ اوراصحابِ اقتدار واختیار کا اثر انداز ہونا۔
جناب محمد رسول اللہ ﷺنے اسلامی معاشرے کی بنیاد، جن اہم ستونوں پر اُستوار فرمائی تھی، ان میں دو اہم ستون یہی تھے:
(۱) انسانی دلوں میں خدا کا خوف پیدا کرنا، اور ہر شخص میں اس احساس کو پیوست کرنا، کہ اسے مرنے کے بعد اپنے ہر قول وفعل کا حساب دینا ہے۔
(۲) عدالتیں کسی کے زیر اثر ہوکر فیصلہ نہیں کریںگی، بلکہ اُصولوں کے مطابق وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ومختار ہوں گی، تاکہ اس کے فیصلے عدل وانصاف کی زرّیں مثالیں ثابت ہوں، اور اگرانہوں نے متعینہ اصولوں کے خلاف فیصلہ کیا ، تو ان کے فیصلے نافذ نہیں ہوں گے، بلکہ وہ خود مجرموں کے زُمرے میں داخل ہوجائیں گے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت اِس پر شاہد