مقدمہ (۳)
(۳) (بھائی-ساجد-اپنی بہن کی طرف سے وکیل بن کر بہنوئی -عادل- کے ساتھ دارالافتاء میں حاضر ہوتا ہے ): السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مفتی صاحب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فرمائیے جناب!آج سالے بہنوئی دونوں کو کس امر نے دارالافتاء لے آیا ہے؟
بھائی (سا جد):جناب مفتی صاحب!
یہ میرے بہنوئی صاحب ہیں، ۲۰۰۵ء میں میری اکلوتی بہن، جو ہمارے پورے خاندان کی لاڈلی ہے، اور والدِ محترم نے (اللہ ان کو جنت نصیب کرے) بڑے پیار ومحبت سے اس کی پرورش کی، اور اپنے جیتے جی کبھی اسے تکلیف نہیں ہونے دی، اور اس خیال سے کہ شادی کے بعد بھی اسے کوئی تکلیف نہ ہو، میرے اس خالہ زاد بھائی عا دل کے ساتھ اس کی منگنی کی، عمر نے وفا نہیں کیا، اور نکاح سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ہم نے ان کے اس کئے ہوئے رشتے کا پاس ولحاظ رکھا، اور عادل کے ساتھ اپنی اس پیاری بہن کا نکاح کردیا، لیکن کیا بتائیں؟ نکاح کے بعد سے لے کر آج تک ہماری اس بہن کو ذرا بھی سکھ و چین نصیب نہ ہوا، جس کی وجہ سے ہم سب کا چین وسکون بھی غارت ہوگیا، ادھر والدہ محترمہ کی حالت قابل رحم بن گئی، کہ جہاں انہیں اپنے رفیقِ حیات (والد محترم)کے اس دنیا سے رخصت ہونے کا غم ورنج کھائے جا رہا ہے، وہیں اپنی اس اکلوتی بیٹی کی تکلیف ومصیبت دیکھ اور سن کر مسلسل آنسو بہاتی ہیں، میرا یہ