اپیل اور عہد
محترم حاضرین !
عدالت میں پیش ہونے والے مقدمات اور فیصلوںکو آپ نے بغور سنا ، جس سے آپ کو یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ آج ہمارا معاشرہ کس طرح کے جرائم کا شکار ہوچلا ہے، عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں، مقدمات فیصل ہورہے ہیں، مجرمین کو سزائیں دی جارہی ہیں، مگر اِس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ جرائم کا یہ سلسلہ ختم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے، اور آئے دن عصمت ریزی ، قتل وغارت گری، لوٹ مار و چوری اور رشوت خوری کے واقعات اخبارات کی شہ سرخیاں بن رہے ہیں، جو اِس بات کے غماز ہیں کہ جرائم کی روک تھام کے لیے، جس قدر صحیح کوششیں کرنی چاہیے، وہ نہیں ہورہی ہیں، حکومتیں اور قانون ساز ادارے ایسے قوانین وضع کررہے ہیں، جن میں تضادات ہیں، مثلاً :
ایک جانب یہ قانون بنایا جارہا ہے کہ جبراً زنا اور عصمت دری کے مجرم کو موت کی سزا دی جائے، تو دوسری طرف ۱۸ ؍ برس کے بعد، ۲۲؍ برس تک رضامندی کے ساتھ اِس جرم کو ترقی کی علامت کہا جارہا ہے،جب کہ جرم، جرم ہوتا ہے،خواہ جبراً ہو یا رضامندی سے ، اور وہ ترقی کی نہیں، بلکہ تباہی وبربادی کی علامت ہوتا ہے۔
ایک طرف عورت کا پیچھا کرنے ، اُس سے میل جول بڑھانے، اُسے غلط ایس ایم ایس کرنے کو جرم کہا جارہاہے، تو دوسری طرف آزادیٔ نسواں کے نام پر مرد