خبیث ،اِسرافِ مال، ہلاکتِ نفس، اور ایذائے مسلمین پر مشتمل ہے، جس کی حرمت پر نصوصِ قرآنیہ دال ہیں۔جس کی تفصیل اس طرح ہے:
اکلِ خبیث : {وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ} ۔ ’’اور وہ حرام کرتا ہے انسان پر گندی چیزیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف:۱۵۷)
اسرافِ مال : {وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا ، اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنَ} ۔ ’’اور مال کو فضولیات میں نہ اڑاؤ، بے شک فضولیات میں اُڑادینے والے شیطانوں کے بھائی بند ہوتے ہیں۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل:۲۶؍۲۷)
{کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ} ۔ ’’ کھاؤ اور پیو، لیکن اِسراف سے کام نہ لو، بے شک وہ( اللہ) مسرفوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الأعراف :۳۱)
ہلاکتِ نفس: {وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ} ۔ ’’ اور تم اپنے کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالیے۔‘‘ (سورۃ البقرہ:۱۹۵)
اسی طرح وکیل دفاع کا یہ کہنا، کہ احادیث میں ان چیزوں کے متعلق ممانعت نہیں، بالکل غلط ہے۔
ایذائے مسلمین : {اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَاِثْمًا مُّبِیْنًا} ۔ ’’اور جولوگ ایذا پہنچاتے ہیں ایمان والوں کو، اور ایمان والیوں کو ،بدونِ اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو، تو وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کا بار (اپنے