ابتدائیہ
الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین ، وعلی آلہ الطیبین الطاہرین ، ومن تبعہم بإحسان إلی یوم الدین ، أما بعد ! قال اللّٰہ تبارک وتعالی :
فأعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم o بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم !
{یا أیہا الرسول بلغ ما اُنزل الیک من ربک ، وإن لم تفعل فما بلغت رسالتہ ، واللّٰہ یعصمک من الناس ان اللّٰہ لا یہدي القوم الکٰفرین} ۔ (سورۃ المائدۃ :۶۷)
قال رسول اللّٰہ ﷺ : ’’ ألا ! فلیُبلِّغ الشاہد الغائب ، فرب مبلّغ أوعی من سامع ‘‘ ۔ (صحیح البخاري :ص/۳۰۷ ، کتاب الحج ، ط : دار احیاء التراث بیروت)
محترم قارئین کرام ! قرآن وحدیث کا علم رکھنے والوں پر فرض ہے کہ وہ اس علم کو عام سے عام تر کریں، اور ہمہ وقت اس کوشش میں لگے رہیں کہ کسی بھی طرح یہ علم ہر کس وناکس کے پاس پہنچ جائے، اور اس کی زندگی تعلیماتِ اسلام کے مطابق بن جائے، اس لیے کہ دینِ اسلام کا مقصود ’’إخلاء العالَم عن الفساد‘‘ (یعنی پوری دنیا کو فساد وبگاڑ سے صاف کرنا ) ہے، اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے، جب کہ فساد کی جگہ صلاح لے لے، بدی کی جگہ نیکی لے لے، شر کی جگہ خیر لے لے، بدعات ورسومات کی جگہ سُنن لے لیں، خاندانی وقبائلی روایتوں کی جگہ روایاتِ مصطفی لے لیں، اور یہ اس وقت ہوگا جب حضراتِ علمائے کرام تبلیغِ دین اور اس کی ترویج کے لیے اپنے دلوں میں نبوی کُڑھن وتڑپ کو پیدا کریں گے، اور اسے اپنی زندگی کا مشن قرار دیں گے، کیوں کہ یہ کام عارضی ووقتی نہیں بلکہ دائمی واَبدی ہے، عبوری وسطحی نہیں بلکہ گہری فکر ومنصوبہ بندی کا متقاضی ہے، اس کے بغیر طبقۂ علماء ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد:- ’’ ألا ! فلیُبلِّغِ الشَّاہدُ الغَائِبَ ‘‘ - سے ثابت فرض سے سبک دوش نہیں ہوسکتا۔
الحمد للّٰہ ! حضراتِ علمائے کرام نے اپنے اس فرض کی انجام دہی کے لیے مختلف طریقے اپنا