وعورت کے اختلاط، مخلوط تعلیم، مخلوط نوکریوں، عریانی فلموں، جذبات کو بھڑکانے والی تحریروں اور اشتہارات کی کھلی چھوٹ دی جارہی ہے۔
ایک جانب رشوت لینے کو منع کیا جارہا ہے، تو دوسری طرف بغیر مطالبے کے لی جانے والی رقم کو، رشوت کے زُمرے سے خارج کیا جارہا ہے۔
ایک جانب شراب پی کر ڈرائیونگ کرنے، یا بحالتِ نشہ اپنی ڈیوٹی کے فرائض انجام دینے کو منع کیا جارہا ہے، تو دوسری جانب حکومتی لائسنس کے ساتھ شراب فروشی کی عام ا جازت دی جارہی ہے۔
ایک طرف کسی کی توہین وہتکِ عزت کو جرم کہا گیا، تو دوسری طرف حقِ آزادیٔ رائے کے سہارے اِسے پامال کرنے کی پوری گنجائش دی گئی۔
ایک طرف قتل وخون ریزی اور مذہب کی بنیاد پر اشتعال انگیزی کو جرم کہا گیا، تو دوسری طرف عملاً شرپسند عناصر کو نہ صرف اِس کی کھلی اجازت دی گئی، بلکہ سیاسی پارٹیاں اُن کی مکمل پشت پناہی کررہی ہیں، اور انہیں اپنا پارٹی امیدوار بناکر انتخابات میں اُتاررہی ہیں، اس حقیقت کو عیاں کرنے کے لیے ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۲ء کے اُردو روزنامہ’’ انقلاب‘‘ کی یہ خبر کافی ہے کہ:
’’ ۳۶۹؍ ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی پر خواتین کے خلاف جرائم کا الزام ہے ‘‘
ایک طرف قوم کے نونہالوں کو اچھے اخلاق وکردار کی تلقین کی جارہی ہے، تو دوسری طرف اسکولی نصابوں میں جنسی مضامین کو شامل کرکے،اُن کو غلط راہوں کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے، اور پھر اُن سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ مہذب، با