’’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔‘‘ (سورۃ الحجرات :۶)
اور آپ ﷺکا ارشاد ہے: ’’ کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ‘‘ ۔ ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے، کہ وہ سنی سنائی بات بیان کردے۔‘‘ (صحیح مسلم : حدیث :۷)
مقدمہ نمبر دو؛ اس لیے پیش آیا ،کہ مدعیٰ علیہ نے دستورِ ہند کی دفعہ۲۵؍ -جس کے تحت ہر ہندوستانی کو آزادیٔ ضمیر ومذہب حاصل ہے- کا پاس ولحاظ نہیں رکھا، اور آئی پی سی (IPC)کی دفعہ ۲۹۵؍ کی خلاف ورزی کی، حالاں کہ ہم سب کے ہندوستانی ہونے کا تقاضا یہ ہے، کہ ہم ایک دوسرے کے مذہب اور اُن کے پیش واؤں کا احترام کریں، تقریر وتحریر میں ایسی زبان استعمال نہ کریں، جس سے امنِ عامہ پر زد پڑتی ہو، ہماری قدیم گنگا جمنی تہذیب متأثر ہوتی ہو، فرقہ واریت اور عدمِ رواداری کو ہوا ملتی ہو،ملک کی سا لمیت واتحاد کو خطرات لاحق ہوتے ہوں، اور ملک دشمن عناصر کو تقویت پہنچتی ہو، اس لیے کہ باہمی اخوت وبھائی چارگی، اتحاد واتفاق اورامن وامان کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے بغیر کوئی ملک ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔
خود اسلام نے بھی مسلمانوں کو، دیگر مذاہب کے احترام اور اُن کے ماننے والوں کے ساتھ، رواداری کا حکم دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَلَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوْا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ}۔