دعوت دی تھی،لہٰذا حامد کا اپنی اصل رقم کا مطالبہ کرنا،اَزروئے قانونِ اسلامی بالکل جائز ودرست ہے، کیوںکہ دستورِ اَساسی ، فرمانِ الٰہی یہ ہے :
{وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُوْلًا}
’’ اور عہد کی پابند ی رکھو،بے شک عہد کی باز پر س ہوگی۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل:۳۴)
نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ اَلْمُسْلِمُوْنَ عَلَی شُرُوْطِہِمْ ‘‘ ۔
’’مسلمانوںپراپنی شرائط کاپاس ولحاظ ضروری ہے۔‘‘
(سنن ترمذی :۱/۲۵۱،سنن ابی داؤد:۵۰۶،سنن بیہقی:۶/۷۹)
اس لیے میں عدالتِ عالیہ سے درخوست کروںگا کہ وہ صاحبِ حق کو اُس کاحق دلاکر ’’ قَاضٍ فِيْ الْجَنَّۃِ ‘‘ کا مصداق بنیں!
جج وکیلِ استِغاثہ(خالد کے وکیل) سے مخاطب ہوکر :
آپ نے وکیلِ دفاع کا بیان اور اُس کی دلائل سنیں، کیاآپ کواس بیان اور دلائل پر کچھ نقد وجرح کرنی ہے؟
وکیلِ استِغاثہ: جی ہاں!منصف ِعالی مقام !
اتنی بات تو میرا مؤکل خالد بھی تسلیم کرتاہے ،کہ اس نے حامد کی یہ شرط منظورکی تھی،کہ وہ اس کا روبارمیں ہونے والے نقصان کا ضامن نہیں ہوگا ،لیکن اس طرح کی شرط لگانا او راسے قبول کرنا دونوںشرعاً غلط ہیں ،کیوںکہ فقہائے کرام اس طرح کی شرط لگانے کو باطل قرار دیتے ہیں ،یعنی اگر یہ شرط لگائی جائے، تب بھی اس کااعتبار نہیں ہوتا، اور ہرشریک اپنے حصہ ٔ مال کے تناسب سے نقصان کا