(۷)- ’’ مَنْ تَزَوَّجَ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الإِیْمَانِ ، فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِيْ النِّصْفِ الْبَاقِي ‘‘ ۔ ’’جب کسی شخص نے نکاح کرلیا، تو اس نے اپنا آدھا دین مکمل کرلیا، اب وہ (آگے) آدھے باقی ماندہ دین میں اپنے پروردگار سے ڈرتا رہے۔‘‘ (مشکوۃشریف:ص/۲۶۸،المعجم الاوسط للطبرانی:۵/۳۷۲)
اور فقہ حنفی کی ایک اہم ومستند کتاب ’’در مختار‘‘ میں علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ لَیْسَ لَنَا عِبَادَۃٌ شُرِعَتْ مِنْ عَہْدِ آدَمَ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَالسَّلامُ إِلَی الآنِ ، ثُمَّ تَسْتَمِرُّ فِيْ الْجَنَّۃِ إِلاَّ النِّکَاحُ وَالإِیْمَانُ ‘‘۔ ’’حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے لے کر، آج تک (بلکہ قیامت تک) صرف دو ہی عبادتیں یک ساں طور پر مشروع ہیں، ان میں سے ایک نکاح اوردوسرا اِیمان، اور یہ دونوں عبادتیں جنت میں بھی جاری (وباقی) رہیں گی۔‘‘
(۱/ ۱۸۵،کتاب النکاح)
ساجد صاحب! اِن تمام آیتوں ، روایتوں، اور فقہی عبارت سے آپ بآسانی اندازہ لگاسکتے ہیں -کہ نکاح شریعت کی نگاہ میں کس قدر اہم عبادت ہے، اور اللہ رب العزت نے مردوں کے لیے اُن کی ہم جنس بیویوں کو پیدا کرکے ، اُن پر کس قدر عظیم احسان فرمایا، کہ یہ بیویاں مردوں کے لیے سرمایۂ راحت وتسکین،اور باعثِ سکون ہیں، ان سے مردوں کا دل بہلتا ہے، اور زندگی کے بہت سے اہم موڑوں پر یہی بیویاں اپنے شوہروں سے فطری محبت وہم دردی کی بنا پر ، اُنہیں سنبھالا دیا کرتی ہیں۔