ہوگیا، جو کبھی نکاح سے پہلے حاصل تھا۔‘‘ ، اسی لیے بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ : ’’آدھی روٹی پر قناعت کرو، ایک کے چکر میں نہ پڑو، کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ اُس ایک کے چکر میں یہ آدھی بھی چلی جائے۔‘‘
حضرت مفتی صاحب! میں اس مَقُولے کا پوری طرح سے مصداق بن چکا ہوں،اب آپ ہی بتائیے! میں اِس مصیبت سے کیسے نجات پاسکتا ہوں؟
مفتی(مہدی حسن) صاحب: محترم ساجدصاحب!
مجھے آپ کے حالات سن کر بڑا رنج ہوا، اور اِس بات پر افسوس بھی- کہ آپ اسلامی تعلیمات سے متعلق شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں، کہ نکاح کے بعد ،بجائے سکون حاصل ہونے کے، موجودہ سکون بھی غارت وبرباد ہوجاتا ہے۔
بھائی ساجد صاحب! ہمارا اور آپ کا ، بلکہ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کا ہر ہر جز ، اور اُس کے احکام کا ہر ہر فرد، جہاں حقانیت وصداقت پر مبنی ہے، وہیں اس پر عمل کرنا تمام بنی نوعِ انسانی کی کامیابی وکامرانی، اور چین وسکون کا ضامن ہے ۔چنانچہ نکاح کے سلسلے میں اللہ رب العزت کے یہ فرامین :
(۱) - {وَأُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ أَنْ تَبْتَغُوْا بِأَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ} ۔ ’’اور جو ان کے علاوہ ہیں وہ تمہارے لیے حلال کردی گئی ہیں، یعنی تم انہیں اپنے مال کے ذریعہ سے تلاش کرو، اس طور پر کہ قیدِ نکاح میں لانے والے ہو ، نہ کہ مستی نکالنے والے۔ ‘‘ (سورۂ نساء :۲۳)
(۲)- {وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً أَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ} ۔