عام نصیحت کی مجلسوں میں سنا کہ نکاح پاک دامنی کا ذریعہ ہے، نکاح نبیوں کی سنت ہے، نکاح سے نصف ایمان مکمل ہوجاتا ہے، نکاح سے آدمی مددِ خداوندی کا مستحق ہوتا ہے، اور نکاح کی بدولت زندگی کا سکون میسر ہوتا ہے۔
لیکن میری زندگی نکاح کے بعد بالکل اس کے برعکس ہے، نکاح سے پہلے کسی قدر چین وسکون حاصل تھا، بیوی آجانے کے بعد ، وہ بھی پوری طرح غارت ہوگیا، شام کو جب دن بھر کام کرکے گھر آتا ہوں ، تو گھر ، گھر نہیں، بلکہ…؛
کبھی میدانِ جنگ، تو کبھی جنگ کے بعد کے آثار- کی منہ بولتی تصویر بنا ہوتا ہے۔
کبھی میری والدہ محترمہ اپنی بہو ، یعنی میری بیوی سے لفظی جنگ میں مشغول ہوتی ہے ، تو بیوی اُس کے دفاع میں بر سرِپیکار دکھائی دیتی ہے۔
کبھی بیوی کا منہ چڑھا ہوا ہوتا ہے ، تو کبھی ماں کے تیور بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔
کبھی والد کی تیز نگاہوں کا سامنا ہوتا ہے، تو کبھی بھائیوں کی شکن پڑی جبینوں سے میرا استقبال ہوتا ہے۔
کبھی بہنیں ماں کے پاس جمع ہوکر بھابی (میری بیوی) کے خلاف نئی جنگ کی حکمتِ عملی پر غور وخوض کررہی ہوتی ہیں، تو میری بیوی موبائل فون پر اپنے میکے والوں کے ساتھ، نئے دفاعی اُسلوب وطریقۂ کار پر، باہم تبادلہ خیال ومشورے میں مصروف ہوتی ہے، اب آئے دن گھر کے یہ مناظر دیکھ کر، میں دل ہی دل میں کہتا ہوں : ’’اے کاش! کہ میرا نکاح ہی نہ ہوا ہوتا،توکتنا اچھا ہوتا، کہ اس پورے سکون کو حاصل کرنے کے لیے، میں اُس تھوڑے سکون سے بھی محروم