کہ ہمارے محلے کا ایک شخص بھی آپ ہی کی طرح ایک مسئلے میں بڑا پریشان تھا ، کچھ دنوں کے بعد میں نے اُسے چین وسکون کی حالت میں دیکھا ، تو ان سے پوچھا: کیا آپ کا وہ مسئلہ حل ہوگیا ؟ وہ کہنے لگا : جی ہاں! الحمد للہ، مفتی مہدی حسن صاحب نے میرا وہ مسئلہ حل کردیا ، تب ہی سے میں چین وسکون کی سانسیں لے رہاہوں، ورنہ میں بڑا پریشان تھا۔
ساجد میاں ! میں بھی آپ سے یہی کہوں گا کہ آپ اپنا یہ مسئلہ حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں پیش کریں، اگر آپ کہیں تو ہم دونوں بھی آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔
ساجد: (عامر اور ماجد سے) تو پھر دیر کس بات کی ؟ ابھی اور اِسی وقت مفتی صاحب کے پاس چلتے ہیں۔
(عامر ، ماجد اور ساجد تینوں ایک ساتھ دار الافتاء پہنچتے ہیں۔)
ساجد : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مفتی (مہدی حسن) صاحب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! کہیے ساجد میاں ! آج صبح ہی صبح کیسے دار الافتاء حاضری ہوئی، کیا کوئی مسئلہ درپیش ہے؟
ساجد: جی ہاں مفتی صاحب! کئی روز سے ایک بات دل ودماغ میں کھٹک رہی تھی ، سوچا آج مفتی صاحب سے اس کا خلاصہ کرلوں۔
مفتی صاحب! میں نے علمائے کرام سے نکاح کی تقریبوں ، جمعہ کے خطبوں اور